Ahsan-ut-Tafaseer - Faatir : 10
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا١ؕ اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ مَكْرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ یَبُوْرُ
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعِزَّةَ : عزت فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْعِزَّةُ : عزت جَمِيْعًا ۭ : تمام تر اِلَيْهِ : اس کی طرف يَصْعَدُ : چڑھتا ہے الْكَلِمُ الطَّيِّبُ : کلام پاکیزہ وَالْعَمَلُ : اور عمل الصَّالِحُ : اچھا يَرْفَعُهٗ ۭ : وہ اس کو بلند کرتا ہے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَمْكُرُوْنَ : تدبیریں کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : بری لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ : عذاب سخت وَمَكْرُ : اور تدبیر اُولٰٓئِكَ : ان لوگوں هُوَ يَبُوْرُ : وہ اکارت جائے گی
جو شخص عزت کا طلبگار ہے تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں اور جو لوگ برے برے مکر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر نابود ہوجائے گا
10۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ مجاہد عکرمہ اور مفسرین متقدمین نے جو اس آیت کے معنے بیان کئے ہیں اس کا حاصل یہ ہے کہ عمل نیک سے مراد وہ عمل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے جیسے نماز روزہ حج زکوۃ اور کلمات پاکیزہ سے مقصود نفلی ذکر الٰہی ہے جیسے تلاوت قرآن تسبیح تہلیل دعاء جو شخص فرض عبادت کے ادا کرنے کے بعد یہ نفلی ذکر الٰہی کرے گا اس کے فرض عمل اس کے نفل ذکر الٰہی کو اس رتبہ کو پہنچاویں گے کہ وہ نفلی ذکر آسمان پر چڑھ جاوے گا اور آسمان پر چڑھنے سے یہ مطلب ہے کہ وہ نفلی ذکر اللہ کی جناب میں قبول ہوجاوے گا اور و شخص بدون فرض عبادت ادا کرنے کے کوئی نفلی ذکر الٰہی کرے گا اس کا وہ نفلی ذکر ہرگز قبول نہ ہوگا طبرانی بیہقی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس معنے کو روایت کیا ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا 1 ؎ ہے اور علی ابن ابی طلحہ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہی معنے روایت 2 ؎ کئے ہیں (1 ؎ فتح البیان ص 706 ج 3۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثرا ص 549 ج 3۔ ) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایتوں میں علی بن ابی طلحہ کی سند وہی قابل قدرسند ہے جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ امام احمد فرمایا کرتے تھے مدینہ سے مصر تک کے سفر میں اس سند سے ایک روایت بھی جس شخص کے ہاتھ آوے تو گویا اس نے وہ روایت مفت پائی اور یہی سند ہے جس کو امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب التفسیر میں جگہ جگہ اختیار کیا ہے حاصل یہ ہے کر بعضے مفسروں نے علاوہ اس معنے کے اور معنے جو اس آیت کے بیان کئے ہیں ان سب معنوں سے یہ معنے زیادہ صحیح ہیں اور نیک عمل کے آسمان پر چڑھنے کی کیفیت اور حالت اسی بیہق اور حاکم کی روایت 3 ؎ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے یوں بیان فرمائی ہے (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 245 ج 5‘) کہ سبحان اللہ یا اور کوئی نیک کلمہ آدمی کے منہ سے نکلے تو فورا وہ فرشتے جو نیک کلموں کے ثواب کے لکھنے پر مقرر ہیں ان کلموں کو آسمان پر لے جاتے ہیں اور جس آسمان کے فرشتے اس کو دیکھتے ہیں اس نیک شخص کے لیے مغفرت کی دعاء کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ کلمات نیک اور عمل نیک اللہ تعالیٰ کیدر کہ میں پہنچ جاتے ہیں معتبر سند سے مستدرک حاکم اور ابن ماجہ میں نعمان بن بشیر ؓ سے جو روایتیں 4 ؎ ہیں (4 ؎ الترغیب والترہیب ص 432 ج 2۔ باب الترغیب فی التسبیح والتہلیل والتحمید الخ۔ ) ان کا حاصل یہ ہے کہ جب وہ نیک کلمات اللہ تعالیٰ کی درگاہ تک پہنچتے ہیں تو عرش کے گرد پھرتے ہیں اور شہد کی مکھی کی طرح بھن بھناتے ہیں اور جس شخص کے منہ سے وہ کلمات نکلے ہیں اس کا ذکر خدا تعالیٰ کے دربار میں آتا ہے اس لیے ہر انسان کو شوق چاہئے کہ اس کا ذکر ہمیشہ خدا کے دربار میں آیا کرے یہ تو نیک کلموں اور نیک عملوں کا آسمان پر چڑھنے کا حال ہوا اب رہا ان کا ثواب اس کا حال ہوا اب رہا ان کا ثواب اس کا حال حضرت ابوہریرہ ؓ کی صحیحین کی حدیث میں گذر چکا ہے کہ جب آدمی دین میں خوب پکا ہوجاتا ہے تو اس کی ہر نیکی کا ثواب دس گنہ سے لے کر سات کی حدیث میں گذر چکا ہے کہ جب آدمی دین میں خوب پکا ہوجاتا ہے تو اس کی ہر نیک کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو تک لکھا جاتا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ رات کے لوگوں کے نیک عمل دن سے پہلے اور دن کے رات سے پہلے آسمان پر چرڑھ کر اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوجاتے ہیں یہ حدیث آیت کے ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہمیشہ رات دن کے لوگوں کے عمل آسمان پر چڑھتے اور اللہ تعالیٰ کے روبرو دو وقت پیش ہوتے رہنے ہیں۔ ریأ کی قباحت مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ میکرون سے ریا کار آدمی مراد ہیں جو اپنے عملوں کے ادا کرنے میں یہ مکر کرتے ہیں کہ لوگوں پر تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کی عبادت کر رہے ہیں حالانکہ ریا کے سبب سے ان کے کام خدا کے نزدیک بہت ناپسند ہیں اس واسطے فرمایا کہ ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر عنقریب ظاہر ہوجائے گا کہ دنیا میں سمجھ والے ایماندار لوگوں پر ان کا فریب کھل جاوے گا اور اللہ تو عالم الغیب ہے دنیا اور آخرت میں کوئی چیز اس پر پوشیدہ نہیں ہے ‘ اس لیے اس کی بارگاہ میں بد نیتی کے ایسے کھوئے عملوں کا کچھ اجر نہیں ہے مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی صحیح روایت 1 ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 110 ج 3 تفسیر آخری آیت سورة الکہف۔ ) کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعضے ایسے نیک عملوں کو نامقبول فرما کر اعمال ناموں سے سے نکال ڈالنے کا حکم دے گا کہ جن عملوں میں نامہ اعمال کے لکھنے والے فرشتوں کو بھی بڑائی معلوم نہ ہوگی ‘ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جن عملوں میں ظاہر کسی شرک یا بدعت کا میل ہوگا ان عملوں کی برائی نامہ اعمال کے لکھنے والے فرشتوں سے چھپی نہیں رہ سکیہ اس لیے ایسے عملوں کی برائی صاف صاف نامہ اعمال میں لکھی ہوگی اور ایسے عمل اس دن ضرور نامقبول ٹھہر کر اکارت جائیں گے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ لوگوں کے نیک عمل آسمان پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوتے ہیں جس کا نتیجہ قیامت کے دن یہ ہوگا کہ جو عمل قواعد شرع کے موافق صحیح اور خالص نیت سے ہوں گے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اوپر کی حدیث کے موافق ان کا اجردس سے لے کر سات سودرجہ تک دیا جائے گا اور جو عمل ایسے نہ ہوں گے وہ بالکل رائگاں جائیں گے۔
Top