Ahsan-ut-Tafaseer - Faatir : 24
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا١ؕ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ
اِنَّآ : بیشک ہم اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ بَشِيْرًا : خوشخبردی دینے والا وَّنَذِيْرًا ۭ : اور ڈر سنانے والا وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ اُمَّةٍ : کوئی امت اِلَّا خَلَا : مگر گزرا فِيْهَا : اس میں نَذِيْرٌ : کوئی ڈرانے والا
ہم نے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت نہیں مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے
24 تا 26۔ آنحضرت ﷺ کے ذکر کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور اور انبیاء کے ذکر میں فقط ڈرانیوالا اس واسطے فرمایا کہ صاحب شریعت انبیاء کی ابتدا حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہو کر حضرت شعیب بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک ڈرانے کے طور پر جو کچھ انبیاء نے اپنی امتوں سے کہا تھا اسی کا ظہور زیادہ ہوتا رہا یہ سب عام امتیں عذاب الٰہی سے ہلاک ہوتی رہیں اور بہت تھوڑے لوگ ان میں سے راہ راست پر آئے آنحضرت ﷺ کی امت میں سے اکثر لوگ مسلمان ہوئے اور تھوڑے نافرمانی سے غارت ہوئے اس لیے آپ کے ذکر میں آپ کو دونوں صفتوں کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسکین فرمادی ہے کہ آپ کی امت کا انجام اور امتوں کی بہ نسبت اچھا ہے چناچہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی صحیحین کی حدیث 2 ؎ میں آپ نے خود فرمایا ہے (2 ؎ مشکوۃ ص 512 باب فضائل سید المرسلین ﷺ ۔ ) کہ مجھ کو اللہ کی ذات سے توقع ہے کہ بہ نسبت اور انبیاء کی امتوں کے میری امت کے فرما نبردار لوگوں کی تعداد قیامت کے دن زیادہ ہوگی اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ہر ایک زمانہ کی امت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نصیحت کرنے والا اور ڈرانیوالا نبی گزرا ہے اس میں بعضے مفسروں نے یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آنحضرت ﷺ کے مابین یک زمانہ ایسا گزرا ہے جس میں کوئی نبی نہیں گزرا اس کا جواب اور مفسروں نے یہ دیا ہے کہ کچھ زمانہ تک تو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی نصیحت کا اثر دنیا میں باقی رہا پھر جب لوگوں نے اس نصیحت میں فتور ڈالنا شروع کیا تو آنحضرت ﷺ خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی ہوگئے اور آپ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک رہے گا غرض حضرت نوح ( علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر قیامت تک کوئی زمانہ نبوت کے اثر سے خالی نہیں ہے اس جو اب پر پھر بعضے مفسروں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس صورت میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور آنحضرت ﷺ کے مابین کے زمانہ کے لوگ قابل عذاب ٹھہرتے ہیں حالانکہ آیت وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا کی رو سے ایسے لوگ عذاب کے قابل نہیں ٹھہرتے اس کا جواب یہ ہے کہ مشرکین کی نابالغ اولاد اور مجنوں اور بہرہ شخص اور ایسے شخص کے باب میں جس کو رسول وقت کی نصیحت نہیں پہنچی بہت قدیم زمانہ سے علماء کا اختلاف ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو نافرمائی شریعت کا عذاب ہوگا یا یہ لوگ عذاب سے بالکل برے ہیں صحیح مذہب اس اختلاف میں وہی ہے جس کو بیہقی نے کتاب الاعتقاد میں امتحان کا ہذہب ٹھہرا کر صحیح قرار دیا ہے 1 ؎ مسند امام احمد مسند بزار طبرانی 2 ؎ وغیرہ میں اس امتحان کی تفصیل چند روایتوں 3 ؎ میں جو آئی ہے (1 ؎ فتح الباری ج 2 باب ماقیل فی اولاد المشرکین ‘) (2 ؎ ایضا ‘) (3 ؎ مجمع الزوائد ص 214 ج 7 کتاب القدر ‘) اس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ امتحان کے طور پر ایک آگ میں کود پڑنے کا حکم دیوے گا جو لوگ اس آگ میں گر پڑیں گے وہ جنتی قرار پاویں گے اور اس آگ میں گرنے سے انکار کریں گے ان کو اللہ تعالیٰ فرمائیگا کہ اگر اللہ کے رسولوں کی نصیحت سنے گا موقع ان لوگوں کو ملتا بھی تو علم الٰہی ازلی کے موافق یہ لوگ ضرور نافرماتی کرتے یہ فرما کر ان لوگوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دے گا ان روایتوں میں اکثر روایتیں صحیح ہیں لیکن بعضے علمائے نے ان روایتوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ عقبے میں امتحان نہیں ہے اس سے پہلے حساب و کتاب پل صراط موحدوں اور منافقوں کو سجدہ کرنے کا حکم ہونا اور منافقوں کا سجدہ نہ کرسکنا یہ سب کچھ امتحان نہیں تو کیا ہے ‘ اب آگے اپنے رسول کی تسکین کے لیے فرمایا اے رسول اللہ کے اگر مشرکین مکہ میں کے کچھ لوگ تمہارے جھٹلانے سے باز نہ آویں تو یہ بات کچھ نہیں ہے ان سے پہلی امتیں بھی اپنے رسولوں کو جھٹلا کر طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوچکی ہیں اگر یہ لوگ ان کے قدم بقدم چلیں گے تو بھی انجام ان کا وہی ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے مشرکین مکہ کے بڑے بڑے جھٹلانے والوں کا جو انجام بدر کی لڑائی کے وقت ہوا صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک ؓ کی روایت 5 ؎ کے حوالہ سے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے (5 ؎ مشکوۃ ص 345 باب حکم الاسرائ۔ ) کہ دنیا میں بڑی ذلت سے یہ لوگ مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتانے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو تم لوگوں نے سچا پالیا۔
Top