Ahsan-ut-Tafaseer - Faatir : 3
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ؕ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۖ٘ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ ۭ : اپنے اوپر هَلْ : کیا مِنْ خَالِقٍ : کوئی پیدا کرنے والا غَيْرُ اللّٰهِ : اللہ کے سوا يَرْزُقُكُمْ : وہ تمہیں رزق دیتا ہے مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ ڮ : اس کے سوا فَاَنّٰى : تو کہاں تُؤْفَكُوْنَ : الٹے پھرے جاتے ہو تم
لوگو ! خدا کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو کیا خدا کے سوا کوئی اور خالق (اور رزاق) ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو ؟
3 تا 7۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ جس طرح پیدا کرنا اور روزی کا دینا فقط اسی کا کام ہے نہ کسی اور کا ایسے ہی سوائے اس کے اور کسی کو پوجنا نہیں چاہئے مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرایا جاوئے اور جب اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو پھر تم بعد اس کے ان کھلی ہوئی باتوں سے کہاں سے الٹے جاتے ہو او بتوں کو پوجتے ہو اور اگر اے محمد ﷺ مشرک لوگ تم کو جھٹلادیں اور توحید کو نہ مانیں تو تمہیں پہلے رسولوں کی چال چلنی چاہئے کیوں کہ وہ بھی اپنی قوموں کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لائے تھے ‘ لیکن ان لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور مخالفت کی مطلب یہ کہ یہ کچھ نئی بات نہیں ہے اس لیے ان کے جھٹلانے پر اے محمد ﷺ صبر کرو جیسا کہ پہلے رسولوں نے صبر کیا پھر فرمایا کہ سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عنقریب ہر ایک کو موافق اس کے عمل کے پوری پوری سزا وجزادی جاوے گی پھر فرمایا اے لوگو وعدہ اللہ کا حق ہے وعدہ سے مراد آخرت ہے وہ ضرور ہوگی اور تم دوسری دفعہ جلائے جاؤگے اس واسطے تم کو یہ دنیا کا جینا دھوکا نہ دے مطلب یہ ہے کہ اس دنیائے فانی کے عیش میں جو بمقابلہ عیش آخرت کے کچھ حقیقت نہیں رکھتا مشغول ہو کر آخرت کے عیش کو نہ بھول جاؤ اور نہ دھو کے میں ڈالے تم کو خدا کی یاد سے وہ دھوکہ باز حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق لفظ غرور سے مراد یہاں شیطان ہے حاصل یہ ہے کہ شیطان کہیں تم کو سیدھے راستے سے نہ بہکادے کیوں کہ وہ بڑا دھو کے باز ہے پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کی دشمنی اولاد آدم (علیہ السلام) سے بیان کی کہ وہ شیطان بیشک تمہارا کھلا دشمن ہے تم بھی اس کو دشمن سمجھو اور اس کا کہا نہ مانو وہ بلاتا ہے اپنی پیروی کرنے والوں کو اس لیے کہ وہ دوزخ والوں میں سے ہوجاویں مطلب یہ کہ ان کو بہکا کر اپنے سات دوزخ میں لے جاوے۔ اب آگے شیطان کے بہکاوے میں آنے والوں اور اسبہ کا وے سے بچنے والوں کا نتیجہ بیان فرمایا کہ شیطانی گروہ کا ٹھکا نادوزخ ہے اور قرآن کی نصیحت ماننے والے گروہ کا ٹھکانا جنت شاطان نے اللہ تعالیٰ کے بیان فرمایا کہ شیطانی گروہ کا ٹھکانا دوزخ ہے اور قرآن کی نصیحت ماننے والے گروہ کا ٹھکانا جنت شیطان نے اللہ تعالیٰ کے روبرو نبی آدم کے بہکانے کی قسم جو کھائی ہے اس کا اور اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر شیطان کو جو جواب دیا ہے اس کا ذکر سورة الاعراف میں گزر چکا ہے سورة الا عراف کی وہ آیتیں اور ان آیتوں کی تفسیر میں جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں وہ شیطان کی دشمنی کی تفسیر ہیں۔
Top