Ahsan-ut-Tafaseer - Faatir : 41
اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا١ۚ۬ وَ لَئِنْ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُمْسِكُ : تھام رکھا ہے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین اَنْ : کہ تَزُوْلَا ڬ : ٹل جائیں وہ وَلَئِنْ : اور اگر وہ زَالَتَآ : ٹل جائیں اِنْ : نہ اَمْسَكَهُمَا : تھامے گا انہیں مِنْ اَحَدٍ : کوئی بھی مِّنْۢ بَعْدِهٖ ۭ : اس کے بعد اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے حَلِيْمًا : حلم والا غَفُوْرًا : بخشنے والا
خدا ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے رکھتا ہے کہ ٹل نہ جائیں اگر وہ ٹل جائیں تو خدا کے سوا کوئی ایسا نہیں جو ان کو تھام سکے بیشک وہ بردبار (اور) بخشنے والا ہے
41۔ یہاں ابوہریرہ ؓ یک روایت سے بعضی تفسیروں 1 ؎ میں ایک حدیث نقل کی ہے (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 254 ج 5) کہ حضرت موسیٰ کے دل میں ایک دفعہ یہ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ بھی کبھی سوتا ہے یا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے دو آئینے حضرت موسیٰ اپنے ہاتھ میں رکھیں پھر حضرت موسیٰ کے اونگھ جانے سے وہ ایک آئینہ دوسرے پر گرا اور دونوں آئینے ٹوٹ گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو یوں کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ سوتا تو زمین و آسمان کیوں کر قائم رہتے حافظ ابن کثیر 2 ؎ اور اور مفسروں نے اس اثر کی صحت پر اعتراض کیا ہے (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 561 ج 3۔ ) اور اس کو بنی اسرائیل کی روایت قرار دیا ہے لیکن ابویعلی موصلی نے اپنی مسند میں اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اور دار قطنی اور بیہقی نے اسمآء وصات میں اور خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں چند سند سے موقوف اور مرفوع طور پر اس حدیث کو روایت کیا ہے جس سے اس کی اصل پانی جاتی ہے اسی واسطے بیہقی نے لکھا ہے کہ اس قصہ کی روایت معتبر معلوم ہوتی 3 ؎ ہے (3 ؎ امام بیہقی نے ایک قول ذکر کیا ہے جس میں ہے کہ یہ سوال اسرائیلیوں نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کیا تھا اس کے بعد ” بیہق لکھتے ہیں ھذا اشبہ ان کون ھوالمحفوظ “ (تفسیر الدر المنثور ص 255 ج 5) آیت کی اس ٹکڑے میں بھی مشرکین مکہ کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان لوگوں کے شرک کے سبب سے اگر اللہ تعالیٰ ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دیوے یا زمین میں ان کو دھنسادیوے تو مکہ کے قحط میں انہوں نے اپنے بتوں کی جو بےاختیاری دیکھی ہے ان کی وہی بےاختیاری ہر حال میں موجود ہے لیکن یہ اللہ کی بردباری ہے کہ اس نے باوجود ان لوگوں کے شرک کے دنیا کے ہر طرح کے انتظام کو قائم رکھا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک 4 ؎ جگہ گزر چیک ہے (4 ؎ مشکوۃ ص 13 کتاب الایمان۔ (ع ‘ ح) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی بردباری ہے کہ لوگ شرک کرتے ہیں اور وہ ان کے صحت کے اور رزق کے انتظام میں کچھ خلل ڈالنا نہیں چاہتا ‘ یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔
Top