Ahsan-ut-Tafaseer - As-Saaffaat : 114
وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق مَنَنَّا : ہم نے احسان کیا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ : موسیٰ پر اور ہارون پر
اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کئے
114۔ 122۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان احسانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ جو اس نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہم السلام) پر کئے اول یہ کہ ان دونوں کو نبوت عطا کی دوسرے یہ کہ فرعون اور اس کی قوم بنی اسرائیل پر ظلم کرتے تھے۔ کہ ان کے لڑکوں کو مار ڈالتے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے اللہ تعالیٰ نے اس سے ان کو نجات دی۔ اور مدد کی کہ یہ ان پر غالب ہوگئے۔ اور ان کی زمین اور مال سب کچھ ان کے ہاتھ لگا۔ اور ان کی آنکھوں کے رو برو ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر توراۃ شریف کو اتارا۔ اور بتائی ان کو راہ سیدھی اور پچھلی خلقت میں ان کا یہ ذکر خیر رکھا کہ سب ایماندار ان پر سلام بھیجتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ بیشک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ نیکی کرنے والوں کو۔ پھر فرمایا۔ موسیٰ و ہارون (علیہم السلام) ہمارے ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کی چوتھی پشت کے دادا ہیں۔ ایک جگہ گزر چکا ہے۔ کہ اسرائیل یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ اس لئے یعقوب (علیہ السلام) کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کی مصر کی سکونت کے سبب سے بنی اسرائیل کا قیام مصر میں ہوا۔ فرعون کے زمانہ میں بنی اسرائیل سے محنت مزدوری کے ذلیل کام لئے جاتے تھے۔ پھر بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کی ذلت اس سبب سے شروع ہوئی کہ فرعون نے بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آتی ہوئی خواب میں دیکھی۔ اور یہ بھی دیکھا کہ اس آگ سے فرعونی قبطی قوم کے سب گھر جلادیئے۔ اور بنی اسرائیل کا محلہ اس آگ سے بالکل بچ گیا۔ اس وقت کے نجومیوں نے خواب کی تعبیر یہ بتلائی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جس کے سبب سے فرعونی سلطنت کو زوال ہوجاوے گا۔ اسی واسطے فرعون نے اپنے نزدیک موسیٰ (علیہ السلام) کو دنیا میں نہ رکھنے کے لئے بنی اسرائیل کے سب لڑکوں کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ مگر تقدیر الٰہی کو کون روک سکتا ہے۔ اگرچہ حضرت موسیٰ کے شبہ میں بنی اسرائیل کے ہزاروں لڑکے قتل ہوئے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) آخر پیدا ہو کر فرعون ہی کے گھر میں پلے۔ اور ان ہی کے سبب سے فرعون کو صدمہ پہنچا۔ حاصل کلام یہ ہے۔ کہ فرعون کے اسی سخت حکم کو بڑی گھبراہٹ فرمایا۔ کیونکہ آنکھوں کے سامنے اولاد کا قتل ہونا بڑی گھبراہٹ ہے۔ فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہونے کا قصہ جو کئی جگہ گزر چکا ہے۔ وہ قصہ آیت ونصرنہم فکانواھم الغلبین کی گویا تفسیر ہے۔ سیدھی راہ سے مقصد شرک سے بچنا اور وحدانیت الٰہی پر قائم رہنا ہے۔ جو سب شریعتوں کا جزاعظم ہے۔ صحیح بخاری 1 ؎ میں مالک ؓ بن صعصعہ کی بڑی حدیث ہے جس میں یہ کہ معراج کی رات ہارون (علیہ السلام) کی پانچویں آسمان پر اور موسیٰ (علیہ السلام) کی چھٹے آسمان پر نبی آخر الزماں ﷺ کی ملاقات ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے مرتبہ میں اللہ تعالیٰ نے جو فرق رکھا ہے۔ اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ (1 ؎ صحیح بخاری باب حدیث الاسراء الخ ص 548 ج 1۔ )
Top