Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 10
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
کہہ دو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے پروردگار سے ڈرو جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے اور خدا کی زمین کشادہ ہے جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا
10۔ 16۔ اوپر منکرین حشر کا ذکر فرما کر اب ایمانداروں کا ذکر فرمایا جو علما یہ کہتے ہیں۔ کہ اس مکی سورة میں ان آیتوں میں سے پہلی آیت قل یعباد مدنی ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ اس آیت میں ہجرت کا ذکر ہے اور ہجرت اللہ کے رسول ﷺ کے مدینہ میں آنے اور قرآن کا مدنی حصہ کا نازل ہونا شروع ہونے کے بعد فرض ہوئی ہے۔ لیکن جو علما اس آیت کو مدنی نہیں قراردیتے۔ وہ اس ہجرت کو حبشہ کی ہجرت کہتے ہیں۔ مشرکین مکہ نے جب مسلمانوں کو بہت ستانا شروع کیا تو نبوت کے پانچ برس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ کے حکم سے اسی آدمی کے قریب مکہ سے حبشہ کو چلے گئے تھے۔ اسی کو حبشہ کی ہجرت کہتے ہیں۔ مدینہ کی ہجرت کے بعد یہ لوگ پھر حبشہ سے مدینہ کو چلے آئے۔ اسی واسطے ان لوگوں کو دو ہجرتوں والا کہا جاتا ہے۔ مدینہ کی ہجرت حبشہ کی ہجرت کے چھ ساڑھے چھ برس کے بعد ہے اللہ کے رسول دین کے جو احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں ان کے دلی یقین اور زبانی اقرار کو ایمان کہتے ہیں اب ایمان کے ساتھ تقویٰ بھی ضرور ہے شریعت میں جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے ان کے کرنے کو اور جن باتوں کی مناہی ہے ان سے بچنے کو تقویٰ کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے خوف سے ہونا چاہئے کیونکہ دنیا کو دکھاوے کی کوئی بات بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ایمان کیساتھ تقویٰ کا ذکر فرمانے کی یہی تفسیر ہے جو بیان کی گئی چناچہ صحیح 1 ؎ مسلم میں سفیان ؓ بن عبد اللہ تقفی سے روایت ہے جس میں سفیان کہتے ہیں میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا۔ حضرت اسلام میں مجھ کو کوئی ایسی بات بتلا دیجئے کہ پھر مجھ کو کسی بات کے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے آپ نے فرمایا۔ جن باتوں کے ماننے کا شریعت میں حکم ہے اور ان کے ماننے کا زبان سے اقرار کر اور پھر اس اپنے اقراد پر قائم رہ یہ سفیان بن عبد اللہ طائف کے رہنے والے صحابہ میں ہیں۔ صحیح بخاری میں ان سے کوئی روایت نہیں۔ حضرت عمر ؓ کی خلافت میں یہ سفیان بن عبد اللہ طائف کے حاکم بھی رہے ہیں۔ اقرار پر قائم رہنے کا یہی مطلب ہے کہ شریعت میں جن باتوں کے کرنے کا حکم ہے۔ ان کو کرنا اور مناہی کے حکم کی باتوں سے بچنا چاہئے۔ یعبادی الذین امنوا اتقوا ربکم کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ اب آگے فرمایا جو لوگ دنیا میں اس طرح کے نیک کاموں کے پابند ہوں گے۔ عقبے میں ان کی جزا جنت ہے۔ جہاں ہر طرح کا ہمیشہ کا آرام ہے پھر فرمایا۔ جس سر زمین میں مخالفوں کے ستانے کے سبب سے نیک کاموں کے کرنے کا موقع نہ ملے تو ایماندار شخص کو چاہئے کہ ایسی جگہ نہ رہے۔ اللہ کی سر زمین کچھ تنگ نہیں کشادہ ہے کہیں دوسری امن کی جگہ میں جا رہے پھر فرمایا جو شخص اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنے وطن اور رشتہ داروں کے چھوڑنے کی تکلیف پر صبر کرے گا۔ اس کو قیامت کے دن بےحساب اجر ملے گا۔ دین کی جو باتیں امت میں پھیلتی ہیں ان میں اللہ کے رسول امت کے لوگوں کے گویا استاد ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر قرآن شریف میں اسی طرح جگہ جگہ توحید کی تاکید فرمائی ہے جس طرح آگے کی آیتوں میں ہے تاکہ اللہ کے رسول بھی اسی طرح امت کے لوگوں میں توحید کو تاکید سے پھیلاویں مستدرک حاکم کے حوالہ سے نعمان بن بشیر کی صحیح حدیث 1 ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اکثر وعظ کہنے میں ایسے مصروف ہوتے تھے کہ آپ کی چادر کاندھے پر سے اتر کر گر پڑتی تھی اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے توحید اور دین کے احکام اپنے رسول پر نازل فرمائے اسی تاکید سے اللہ کے رسول نے وہ احکام لوگوں کو پہنچا دیئے۔ ابن ماجہ 2 ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں بنایا ہے جو لوگ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جائیں گے ان کے جنت میں خالی گھر جنتیوں کو مل جائیں گے۔ یہ حدیث خسروا انفسھم و اھلیھم کی گویا تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جان کو دوزخ کے ہاتھ اور جنت کے مکان اور حوروں کو دوسروں کے ہاتھ ہار بیٹھے۔ دوزخ کے اوپر کے درجہ میں جو دوزخی ہوں گے۔ ان کے پائوں کے نیچے کا آگ کا ٹکڑا دوزخ کے نیچے کے درجہ پر بادل کی طرح چھایا ہوا ہوگا۔ اس واسطے نیچے کے آگ کے ٹکڑے کو بھی بادل فرمایا آخر کو فرمایا دوزخ کا عذاب انسان کی برداشت سے باہر ہے اس لئے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور یہ فرماتا ہے کہ اے بندوں اللہ کے عذاب سے ڈرو۔ (1 ؎ صحیح مسلم مع نودی باب جامع اوصاف الاسلام۔ ص 48 ج 1) (1 ؎ بحوالہ مشکوۃ شریف فی صفۃ النارواھلھا الفصل الثانی ص 504) (2 ؎ ابن ماجہ باب صفۃ الجنۃ ص 332)
Top