Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 17
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
اور جنہوں نے اس سے اجتناب کیا کہ بتوں کو پوجیں اور خدا کی طرف رجوع کیا تو ان کے لئے بشارت ہے تو میرے بندوں کو بشارت سنا دو
17۔ 18۔ اگرچہ تفسیر زید بن اسلم اور تفسیر ابن 1 ؎ ابی حاتم میں لکھا ہے کہ ابی ذر غفاری (1 ؎ بحوالہ تفسیر الدرالمنثورص 324 ج 5) اور سلیمان فارسی اور زید بن عمرو بن نفیل ان تین شخصوں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے لیکن حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اس بات کو صحیح ٹھہرایا ہے 2 ؎ کہ آنحضرت ﷺ کے (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 48 ج 4) زمانہ میں یا صحابہ کے یا حال کے زمانہ میں غرض کسی زمانہ میں جو کوئی بت پرستی سے بچا اور توحید اختیار کی اس طرح کے سب لوگوں کی شان میں یہ آیت صادق آتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خوشخبری کے قابل اور صاحب ہدایت اور صاحب عقل ان ہی لوگوں کو ٹھہرایا ہے جو دین کی بات کو سن کر اس کے موافق عمل بھی کرتے ہیں کیونکہ علم بغیر عمل کے آدمی کو کچھ مفید نہیں بلکہ اور وبال کا سبب ہے دارمی میں حضرت ابودرد 1 ؓ سے روایت 3 ؎ ہے کہ (3 ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف کتاب العلم الفصل الثالث ص 37) اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت برا وہ شخص ہے جو دین کا کوئی مسئلہ جانے اور اس کے موافق عمل کرکے اپنے عمل سے کچھ نفع نہ اٹھاوے صحیح 4 ؎ مسلم ترمذی اور نسائی میں زید بن ؓ ارقم (4 ؎ صحیح مسلم باب فی الادیۃ ص 350 ج 2) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے جو عمل کا نفع نہ دیوے زید بن ؓ ارقم کی روایت سے ابو دردا ؓ کی اس روایت کو تقویت ہوجاتی ہے اچھے لوگوں کی خوشخبری کا ذکر جو اس آیت میں ہے حدیث شریف میں اس خوشخبری کے موقعہ بہت سے بیان فرمائے گئے مثلاً قبض روح کے وقت فرشتوں کا اچھے لوگوں کو جنت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خوشخبری کا دین جس کا ذکر ابن ماجہ 5 ؎ اور صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ ؓ (5 ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب اثبات عذاب القبر) کی صحیح روایت سے آیا ہے یا منکر نکیر کے سوال و جواب اور قبروں سے اٹھنے کے وقت جس کا ذکر چند صحیح حدیثوں میں آیا ہے اور اس آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ وہ لوگ بات کو سن کر بہتر بات کی پیروی کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے مثلاً بدلہ لینا اور معاف کرنے کے دونوں حکموں میں سے معاف کرنے کے حکم کی پیروی کرنا کہ اس میں خدا کی خوشنودی زیادہ ہے۔ آنحضرت ﷺ کو یہ بڑی آروز تھی کہ قریش سب مسلمان ہوجاویں اس لئے قریش کی سرکشی کے سبب سے جب آپ کی اس آروز کے خلاف کوئی بات قریش کی جانب سے ظہور میں آتی تھی تو آپ کو اس کا بڑا رنج ہوتا تھا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر آپ کی یہ تسکین فرمائی کہ بعضے لوگ قریش میں ایسے ہیں کہ علم ازلی الٰہی میں وہ جہنمی قرار پا چکے ہیں ان لوگوں کے لئے یہ کوشش کہ وہ سب اسلام لاویں اور دوزخ کی آگ سے بچیں ‘ ایک بےفائدہ کوشش ہے وہاں جن لوگوں کی ہدایت علم ازلی میں ٹھہر چکی ہے وہ تمہاری تھوڑی سی کوشش میں خود راہ راست پر آ جاویں گے اور آخر کو اس کا ٹھکانا جھروکے والے باغوں میں ہوگا جن میں طرح طرح کی نہریں جاری ہوں گی یہ اللہ کا وعدہ ہے جو کبھی خلاف نہیں ہوسکتا ابوجہل اور اس طرح کے اور لوگ جو باوجود کوشش کے اسلام نہیں لاتے ان کے اسلام نہ لانے پر کچھ رنج نہیں کرنا چاہئے یہ لوگ علم الٰہی میں جہنمی قرار پا چکے ہیں صحیح ؎ 1(1 ؎ صحیح مسلم باب حجاج آدم و موسیٰ ص 335 ج 2) مسلم کی حضرت عبد اللہ ؓ بن عمرو بن العاص کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں نیک و بد ہونے والا تھا وہ سب اللہ تعالیٰ نے تو لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اس صورت میں ایک دفعہ تو حضرت آدم کے پیدا ہونے سے پہلے ہی دوزخی اور جہنمی لوگ الگ الگ ہوچکے ہیں پھر جب حضرت آدم پیدا ہوچکے تو اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو حضرت آدم کی پشت سے نکال کر یہ فرما دیا ہے کہ ان میں اس قدر لوگ جنتی ہیں اور اس قدر دوزخی جس کی تفصیل موطا ترمذی 2 ؎ اور ابو دائود میں حضرت عمر کی صحیح روایت (2 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 11) سے آئی ہے اور حضرت 3 ؎ علی ؓ کی صحیحین کی روایت میں ہے کہ ہر شخص کا ٹھکانا جنت ‘(3 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 4) دوزخ جو کچھ ہے وہ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے صحابہ نے یہ حال سن کر کہا تھا کہ کیا حضرت ہم لوگ تقدیر پر بھروسہ کرکے عمل چھوڑ سکتے ہیں آپ نے فرمایا تم لوگ عمل کئے جائو جو شخص جس ٹھکانہ کے لئے پیدا ہوا ہے خودبخود وہ ویسا ہی عمل کرتا ہے۔ صحیح 4 ؎ مسلم میں حضرت عائشہ ؓ (4 ؎ صحیح مسلم باب معنی کل مولودیولد علی الفطرۃ الخ۔ ص 337 ج 2) کی حدیث ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اہل جنت اور اہل دوزخ الگ الگ کئے گئے ہیں اور ہر ایک مقام کے لئے ایک گروہ پیدا کیا گیا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ پہلے پہل اللہ کے رسول ﷺ کے دل میں وہ آرزو تھی جس کا ذکر اوپر گزرا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں اور اسی قسم کی بہت سی آیتوں سے اپنے علم غیب کا حال آپ کو سمجھا دیا۔ تو آپ نے بھی بہت سی حدیثوں کے ذریعہ سے وہ مطلب صحابہ کو سمجھا دیا تاکہ سلسلہ بسلسلہ یہ مطلب امت میں پھیل جاوے ان فی ذلک لذکرے لاولی الالباب اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں قدرت الٰہی کے منکر اور دوزخی قرار پا چکے ہیں۔ ان کا تو کچھ ذکر نہیں۔ مگر جو لوگ علم الٰہی میں اس قابل ٹھہرے ہیں کہ ان کو عقبیٰ کی بہبودی کی عقل ہے۔ وہ دین کی نصیحت کو سنتے اور سمجھتے ہیں اور ان کا اس بات پر یقین ہے کہ جو صاحب قدرت دنیا کی زمین میں طرح طرح کے چشمے جاری کردینے پر پورا قادر ہے۔ جنت کی زمین میں طرح طرح کی نہروں کا جاری کردینا بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ ان آیتوں میں جنت کی نہروں کے ذکر کے عبد مینہ کے برسانے اور اس سے چشموں کے جاری کردینے کا جو تذکرہ ہے اوپر کی تفسیر سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔
Top