بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے
1۔ 2 حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق یہ سورة مکی ہے مشرکین مکہ یہ جو کہتے تھے کہ قرآن محمد ﷺ نے خود بنا لیا ہے یہ اللہ کا کلام نہیں ہے اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ یہ قرآن اللہ زبردست صاحب حکمت کا نازل کیا ہوا ہے زبردست تو وہ ایسا ہے کہ قرآن سے پہلے کے اس کے احکام کو جن پہلی قوموں نے نہیں مانا۔ ان کو طرح طرح کے عذابوں سے اس نے ہلاک کردیا صاحب حکمت وہ ایسا ہے کہ مرنے کے بعد نیک و بد جو انجام ہونے والا تھا اس نے اپنے کلام میں وہ سب انسان کو جتلا دیا۔ تاکہ کسی کو اس انجام سے انجان پنے کا عذر باقی نہ رہے۔ اب دوسری آیت میں حضرت ﷺ کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے فرمایا۔ اے رسول اللہ کے جس قرآن کے نازل کرنے کا ذکر پہلی آیت میں ہے۔ وہ قرآن اللہ تعالیٰ نے تم پر نازل فرمایا ہے۔ منکر قرآن یہ جو کہت ہیں۔ کہ قرآن خود تم نے بنا لیا ہے وہ جھوٹے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کو یہ تو معلوم ہے کہ تم ان پڑھ ہو۔ اور باتیں اس قرآن میں ایسی ہیں۔ کہ ان پڑھ آدمی تو درکنار اہل کتاب بھی بغیر آسمانی وحی کی مدد کے ان باتوں سے ناواقف تھے۔ تو اب اس بات میں شک و شبہ کرنے کا کسی عقل مند کو کیا موقع باقی رہا۔ کہ یہ قرآن کتاب آسمانی ہے۔ اور محمد ﷺ پر جب یہ آسمانی کتاب نازل ہوئی۔ تو وہ بلاشک اللہ کے سچے رسول ہیں حق کے معنی انصاف کے ہیں۔ جس اللہ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا۔ کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں تو یہ عین انصاف ہے کہ اس کی تعظیم میں کسی دوسرے کو شریک نہ کیا جاوے حق کی تفسیر خالص عبادت الٰہی سے فرما کر تعجب کے طور پر پھر مشرکوں کا ذکر فرمایا۔ تاکہ معلوم ہوجاوے کہ جو لوگ اپنے اور اپنی ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے والے کی تعظیم میں بلاسبب دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ بڑے نادان ہیں صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے معاذ ؓ بن جبل کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اللہ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں۔ جن بندوں نے اللہ کا یہ حق پورا پورا ادا کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حق اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ ان بندوں کو دوزخ کے عذاب سے بچاوے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں خالص دل کی عبادت کا جو حکم ہے حدیث کے موافق۔ وہ بندوں پر اللہ کا ایک حق ہے۔ جس کے پورا پورا ادا ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندوں کا یہ حق اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ اللہ کے اس حق کے ادا کرنے والوں کو دوزخ کے عذاب سے بچاوے آیتوں میں خالص عبادت الٰہی کے ساتھ مشرکوں کا جو ذکر ہے۔ اس کا مطلب اس صحیح حدیث کے موافق یہ ہے۔ کہ مشرک لوگ اللہ کے حق میں خلل ڈالتے ہیں۔ اس لئے وہ دوزخ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ (1 ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جہل۔ ص 566 ج 1) (1 ؎ صحیح مسلم مع نودی باب الدللہ علی من مات علی التوحید دخلہ الجنۃ قطعاً ص 44 ج 1 و صحیح بخاری باب من خص بالعلم قوما دون قوم وایضاً ج 2 ص 962 باب من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللہ)
Top