Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 22
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس ۔ جس شَرَحَ اللّٰهُ : اللہ نے کھول دیا صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر نُوْرٍ : نور مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اپنے رب کی طرف سے فَوَيْلٌ : سو خرابی لِّلْقٰسِيَةِ : ان کے لیے ۔ سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مِّنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو (تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوسکتا ہے ؟ ) پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں
22۔ 23 معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی 1 ؎ اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان اور جنات کو پیدا کیا تو سب خواہش نفسانی اور طرح طرح کی حرص اور ہوا کے اندھیرے میں پھنسے ہوئے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک نور پیدا کیا۔ انسان اور جنات میں سے جس کسی کو اس نور میں سے جس قدر حصہ دنیا میں پیدا ہوجانے کے بعد ملا اسی قدر اس نے دین کے راستہ کو اختیار کیا۔ اور جو شخص وہاں اس عالم ارواح کے نور کے حصہ سے محروم رہا دنیا میں پیدا ہونے کے بعد بھی اس کو راہ راست پر آنا نصیب نہیں ہوا صحیح بخاری 2 ؎ کی ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے علم غیب کے موافق پہلے ہی جو کچھ لکھا جانا تھا وہ لوح محفوظ میں لکھا جا کر اب قلم خشک ہوگیا۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق جس کو لوح محفوظ میں نیک لکھ لیا تھا۔ اس نے اس نور کا حصہ پایا اور دنیا میں پیدا ہونے کے بعد بھی وہ شخص نیک کاموں کی طرف مائل ہوا اور جو شخص اللہ کے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں بد لکھا گیا۔ وہ عالم ارواح کے نور سے بھی محروم رہا اور دنیا میں پیدا ہونے کے بعد بھی اس کے دل میں نیک کام کی رغبت پیدا نہیں ہوئی۔ اسی حدیث کے مطلب کے موافق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ جس کسی نے اللہ کے رسول کی نصیحت کو مان لیا اور اسلام کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے اس کا دل کھل گیا۔ اس کو اللہ کی طرف سے ایک ازلی روشنی ملی ہوئی ہے۔ اور جو شخص اس ازلی روشنی سے وہاں محروم رہا اس کا دل اس ازلی اندھیرے کے سبب سے دنیا میں سخت ہے ‘ اللہ کے رسول کی نصیحت سے اس کا دل ذرا نہیں پسیجتا پھر فرمایا ایسے سخت دل لوگوں کی بڑی خرابی ہے اور وہ بالکل بہکے ہوئے ہیں۔ ترمذی 3 ؎ اور مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ایک دوسری صحیح حدیث ہے ‘ اس میں بھی اس ازلی روشنی کا ذکر ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ وقت اللہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور حضرت آدم کی پشت سے ان کی سب اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی۔ چیونٹیوں کی طرح نکالا تو ہر ایک انسان کی پیشانی پر ایک طرح کا نور تھا اس حدیث میں جس نور کا ذکر ہے یہ فطرت اسلام کا نور ہے۔ جس کا ذکر صحیحین 4 ؎ کی حدیث میں آیا ہے کہ جو بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی اور نصرانی بنا لیتے ہیں اس نور میں سب انسان شریک ہیں اس نور میں اللہ تعالیٰ نے اتنا ہی اثر رکھا ہے کہ پیدا ہونے سے زبان کے کھلنے تک بچہ فطرت اسلام پر رہتا ہے پھر بڑی عمر میں نیک ہوجاتا ہے یا بد بڑی عمر میں جو نیک رہتا ہے اور اسی حالت پر ثابت قدم رہ کر مرتا ہے یہ نور ہدایت کا اثر ہے اور یہ نور وہی ہے۔ جس کا ذکر پہلی حدیث میں ہے غرض فطرت کا نور الگ ہے اور ہدایت پانے کا الگ ہے فطرت کے نور میں حضرت آدم نے اپنی اولاد کو ازل میں جب دیکھا ہے تو سب کی پیشانی کو نورانی پایا جس کا ذکر ترمذی کی حضرت ابوہریرہ ؓ کی صحیح حدیث میں اوپر گزرا اور ہدایت کے نور میں حضرت آدم نے اپنی اولاد میں بعضوں کو نورانی بعضوں کو کوئلہ کی طرح کا سیاہ روز ازل میں دیکھا ہے اور ان کے دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے فرمایا ہے کہ یہ نورانی چہرہ کے لوگ جنتیوں کا گروہ ہے اور سیاہ رو لوگ دوزخی ہیں اس کا ذکر حضرت ابو دردا کی روایت سے مسند امام احمد 1 ؎ میں ہے۔ یہ حدیث بھی اوپر گزرا وپر گزر چکی ہے اور اس حدیث کی سند بھی معتبر ہے اس آیت میں نیک کاموں کے لئے دل کے کھل جانے کا جو ذکر ہے نوادر الاصول حکیم ترمذی اور تفسیر ابن مردویہ وغیرہ میں ناقابل اعتراض سند سے عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ عمر سے جو روایتیں 2 ؎ ہیں ان میں آنحضرت ﷺ نے اس دل کے کھل جانے کی یہ نشانی فرمائی ہے کہ اس دل کے کھل جانے کے بعد آدمی کو دین کے کاموں کا ایک شوق پیدا ہوجاتا ہے اور دنیا سے ایک طرح کی نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ سخت دل لوگوں کے ذکر کے بعد آگے نرم دل لوگوں کا ذکر فرمایا کہ کلام الٰہی سن کر عذاب کی آیتوں سے ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ڈر کے مارے کانپ جاتے ہیں اور قرآن کی نصیحت کے موافق عمل کرنے کو ان کا دل ان کا جسم دونوں تیار ہوجاتے ہیں۔ پھر فرمایا جو لوگ اللہ کے علم غیب میں نیک قرار پا چکے ہیں ان کو اللہ اسی طرح راہ راست پر لاتا ہے اور جو لوگ اللہ کے علم غیب میں بد قرار پا چکے ہیں۔ ان کو کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا اکثر سلف کے نزدیک کتابا متشابھا۔ کا یہ مطلب ہے کہ فصاحت میں غیب کی سچی خبروں میں قرآن کی آیتیں ملی جلی ہیں اور مثانی کا یہ مطلب ہے کہ سمجھانے کے لئے قرآن میں ایک ہی مضمون کو دبوار بیان کیا گیا ہے صحیح بخاری 3 ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن شریف کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث کو آخری آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن شریف مینہ کے پانی کی طرح عام لوگوں کے فائدہ اور ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے لیکن جس طرح اچھی زمین کو مینہ کے پانی سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح قرآن کی نصیحت سے فقط انہی لوگوں کو فائدہ پہنچا جو جو دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے تھے اور جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں بد قرار پا چکے تھے ان کے حق میں قرآن کی نصیحت اسی طرح رائیگاں گئی جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ (1 ؎ جامع ترمذی ابواب الایمان ص 104 ج 2) (2 ؎ صحیح بخاری باب جف القلم علی علم اللہ۔ ص 976 ج 2) (3 ؎ جامع الترمذی ج 2 ص 104 باب افتراق ھذہ الامۃ وایضا فی تفسیر سورة الاعراف ج 2 ص 156) (4 ؎ بخاری ج 2 ص 976 کتاب القدر باب اللہ اعلم بما کانوا عاملین۔ صحیح مسلم ج 2 ص 336 کتاب القدر باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ الخ) (1 ؎ مرعاۃ المفاتیح ج 1 ص 126 باب الایمان بالقدر قال المبار کفوری شارح المشکوۃ رواہ احمد (441 ج 6) واخرجہ ایضا البزار و الطبرانی قال الھیثمی 185 ج 7 ورجالہ رجال الصحیح) (2 ؎ تفسیر الدر المنثور تفسیر الایۃ المذکورۃ ج 5 ص 325) (3 ؎ صحیح البخاری ج 1 ص 18 باب فضل من علم و علم و صحیح مسلم ج 2 ص 247 کتاب الفضائل باب مثل ما بعث النبی ﷺ من الھدی والعلم)
Top