Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 27
وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا : اور تحقیق ہم نے بیان کی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِيْ : میں ھٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن مِنْ كُلِّ : ہر قسم کی مَثَلٍ : مثال لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے لوگوں کے (سمجھانے کے لئے) اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کیں ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
27۔ 28۔ مطلب یہ ہے کہ شرک کی برائیوں اور توحید کی خوبیوں کی مثالیں قرآن شریف میں لوگوں کے سمجھنے کے لئے بیان کردی گئی ہیں مثلاً سورة الرعد میں جو مثال اسی باب میں بیان فرمائی اس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں یا کسی اور سے مدد چاہتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جس طرح کوئی پیاسا آدمی پانی سے دور کھڑا ہو کر اس امید میں رہے کہ پانی خود بخود اس کے منہ میں آجائے گا انجام اس بجا امید کا یہی ہوگا کہ پانی خود بخود کسی کے منہ تک آنے کی قدرت نہیں رکھتا اس لئے وہ شخص پیاسا ہی رہے گا اب جس طرح پانی میں کسی کے منہ تک آنے کی قدرت نہیں یہی حال مشرکوں کی پوجا کی مورتوں اور مورتوں کی اصل صورتوں کا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے کسی کارخانہ میں کچھ دخل نہیں۔ اس لئے بغیر مرضی الٰہی کے وہ کسی کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے۔ اسی مثال میں فرمایا لا دعوۃ الحق جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی سبب سے وہ انسان کی ہر ایک ضرورت سے واقف اور کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ اسی واسطے ہر شخص کو چاہئے کہ خالص دل سے اس کو اپنا معبود جانے اور اس سے اپنی ہر ایک ضرورت کے رفع ہونے کی التجا کرے۔ اس طرح کی مثالیں قرآن شریف میں اور بھی بہت ہیں۔ جو جگہ جگہ گزر چکی ہیں قریش کو مکہ کے قحط کے وقت اس طرح کی مثالوں کا تجربہ ہوچکا ہے کہ ان کے بتوں سے دفع قحط میں کچھ مدد نہ ملی آخر اللہ کے رسول کی دعا سے مینہ برسا۔ صحیح بخاری 1 ؎ وغیرہ کے حوالہ سے عبد اللہ ؓ بن مسعود کی حدیث مکہ کے قحط کے باب میں ایک جگہ گزر چکی ہے۔ آگے فرمایا کہ یہ لوگ عرب ہیں اس لئے جس قرآن میں یہ مثالیں ہیں وہ ان کی زبان کے صاف صاف لفظوں تارا گیا ہے تاکہ یہ لوگ ان مثالوں کو سمجھ کر اللہ سے ڈریں اور شرک سے باز آئیں۔ صحیح بخاری 2 ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ صحیح بخاری 3 ؎ ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن میں سمجھ دار کے لئے مثالیں تھیں۔ زبان بھی خاص قریش کی تھی لیکن میں کے جو لوگ علم الٰہی میں دوزخی قرار پا چکے تھے ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ (1 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 52) (2 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 63) (3 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 4)
Top