Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 45
وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جاتا ہے اللہ وَحْدَهُ : ایک۔ واحد اشْمَاَزَّتْ : متنفر ہوجاتے ہیں قُلُوْبُ : دل الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ ۚ : آخرت پر وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ : ذکر کیا جاتا ہے الَّذِيْنَ : ان کا جو مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِذَا : تو فورا هُمْ : وہ يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوش ہوجاتے ہیں
اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہوجاتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں
45۔ 46۔ مشرکین مکہ جو کہتے تھے کہ ہم نیک لوگوں کی مورتوں کی پوجا اس لئے کرتے ہیں کہ وہ نیک لوگ بار گاہ الٰہی میں سفارش کریں گے ان مشرکین کی اس بات کا ایک جواب تو اللہ تعالیٰ نے سورة یونس میں دیا تھا جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن وہ نیک لوگ بجائے سفارش کے ان مشرکوں کے شرک سے اپنی بیزاری ظاہر کریں گے دوسرا جواب اس بات کا ان آیتوں میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کی جن آیتوں میں اکیلے اللہ کا نام آئے تو ان آیتوں کو سن کر ان اللہ کے سامنے کھڑے ہونے والے منکروں کے دل میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور جب ان کے بتوں کا نام آئے تو ان کے دل خوش ہوجاتے ہیں یہ سفارش کی امید کا طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ مشرکوں کا طریقہ ہے جن مشرکوں کے حق میں اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جس طرح اونٹ سوئی کے ناکے میں نہیں جاسکتا اسی طرح مشرک کی نجات بھی نہیں ہوسکتی اسی واسطے ابراہیم علیہ اسلام اپنے باپ آزر کی سفارش کریں گے اور وہ منظور نہ ہوگی ان مشرکین کی حالت تو آزر سے بھی بدتر ہے کہ ان کی سفارش کو تو کوئی کھڑا بھی نہ ہوگا بلکہ جن سے ان کو سفارش کی امید ہے وہ بجائے سفارش کے ان سے بیزاری ظاہر کریں گے۔ اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کے اگر اس فہمائش کے بعد بھی یہ لوگ اپنے جھوٹے جھگڑوں کی باتوں سے باز نہ آئیں تو تم ان کا فیصلہ اللہ پر سونپ دو اس نے آسمان و زمین سب کچھ پیدا کیا ہے اس لئے آسمان و زمین کی کوئی ظاہر و باطن حالت اس کے علم سے باہر نہیں ہے وہ اپنے علم کے موافق وقت مقررہ پر ان کے سب چھوٹے بڑے جھگڑوں کا جب فیصلہ کر دے گا تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی قیامت کے دن ایسے لوگوں کا جو فیصلہ ہوگا اس کی تفصیل سورة الحاقہ میں آئے گی جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ جب اپنے اعمال ناموں میں اول سے آخر تک بدیاں لکھی ہوئی دیکھیں گے تو بہت پچھتائیں گے اور یہ بےوقت کا پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آئے گا آخر ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیا جائے گا اور زنجیروں میں ان کی جماعت کو پرویا جا کر دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔ مسند امام احمد 2 ؎ ترمذی وغیرہ میں چند صحابہ کی معتبر روایتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ان زنجیروں میں سے ہر ایک زنجیر کی لمبائی چالیس برس کے راستہ کے فاصلہ کی برابر ہوگی سورة الانبیا میں گزر چکا ہے کہ ان لوگوں کو ذلیل کرنے کے لئے ان کے ان بتوں کو بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جن کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ مسند امام احمد ترمذی 3 ؎ نسائی اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی صحیح روایت سورة ص میں گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ابو طالب کی بیماری کے وقت اللہ کے رسول ﷺ اور قریش ابو طالب کے گھر پر جمع ہوئے اور اس مجلس میں اللہ کے رسول ﷺ سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر سن کر بڑی نفرت کے ساتھ قریش وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے یہ قصہ اس بات کی تفسیر ہے کہ اکیلے اللہ کے ذکر کو سن کر ان لوگوں کے دل میں ایک نفرت پیدا ہوجاتی تھی۔ سورة النجم کی تفسیر میں صحیح بخاری 4 ؎ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت آئے گی۔ کہ سورة النجم کے ختم پر جب اللہ کے رسول ﷺ نے سجدہ کیا تو آپ کے ساتھ مشرکین مکہ نے بھی سجدہ کیا مشرکین مکہ کے سجدہ کرنے کا سبب جو تفسیر ابن جریر ابن 1 ؎ ابی حاتم وغیرہ میں چند روایتوں سے بیان کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب مکہ میں سورة النجم نازل ہوئی اور اس سورة کی آیت افرء یتم الات و العزی و مناۃ الثالثہ الاخرے کو اللہ کے رسول نے پڑھا تو شیطان نے مشرکین مکہ کے کانوں میں کچھ ایسے لفظ پھونک دیئے جن سے ان بتوں کی تعریف نکلتی تھی اس واسطے ختم سورة پر جب اللہ کے رسول ﷺ نے سجدہ کیا تو اپنے بتوں کی تعریف کی خوشی میں مشرکین مکہ نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا کے بعد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے شیطان کی شرارت کا حال کھول دیا یہ قصہ اس بات کی تفسیر ہے کہ مشرکین مکہ اپنے بتوں کی تعریف سن کر بہت خوش ہوتے تھے۔ محی الدین 2 ؎ ابن عربی قاضی عیاض وغیرہ نے اگرچہ اس قصہ کو غلط ٹھہرایا ہے لیکن سورة الحج میں گزر چکا ہے 3 ؎ اور سورة النجم میں آئے گا کہ اس مرسل روایت کے تین طریقے صحیح ہیں جس سے ایک روایت کو دوسری روایت سے تقویت ہوجاتی ہے بغیر ذکر صحابی کے تابعی کی روایت کو مرسل کہتے ہیں۔ مفسرین کی بڑی جماعت کا ہی مذہب ہے کہ تفسیر کے باب میں تابعیوں کا قول صحابہ کے قول کے برابر ہے اور صحابہ کا قول حدیث نبوی کے برابر ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے عقلی تفسیر کی ممانعت جو فرمائی ہے اس ممانعت سے صحابہ اور تابعین بیخبر نہیں ہیں اس لئے اس باب میں صحابہ جو کچھ کہتے ہیں وہ اللہ کے رسول سے سن کر کہتے ہیں۔ اس قاعدہ کے موافق تفسیر کے باب میں صحیح مرسل روایت کا جو اعتبار کیا جاسکتا ہے وہ ظاہر ہے اس واسطے امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب التفسیر میں مجاہد کے قول کا جگہ جگہ اعتبار کیا ہے۔ مجاہدین جبیر حضرت عبد اللہ بن عباس کے نامی شاگرد اور ثقہ تابعی ہیں صحیح مسلم کے حوالہ 4 ؎ سے ابوہریرہ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ایک ایک منکر حشر کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے رو برو کھڑا کرکے دنیا کی طرح طرح کی نعمتیں یاد دلائے گا اور یہ منکر حشر شخص ان نعمتوں کا جب اقرار کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس اللہ نے وہ سب نعمتیں پیدا کی تھیں کبھی تیرے دل میں یہ خیال بھی آیا تھا کہ ان نعمتوں کے حساب و کتاب کے لئے ایک دن تجھ کو اس کے رو برو کھڑا ہونا پڑے گا وہ منکر حشر شخص کہے گا نہیں یہ خیال تو میرے دل میں کبھی نہیں آیا اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا جس طرح تو نے دنیا میں میرے رو برو کھڑا ہونے کو بھلا رکھا تھا اسی طرح بھولی ہوئی چیز کے طور پر آج میں بھی تجھ کو اپنی نظر رحمت سے دور ڈال دیتا ہوں۔ آیتوں میں لایومنون بالاخرۃ جو فرمایا یہ حدیث اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ انتظام الٰہی میں جب حشر اور قیامت کا قائم ہونا ٹھہر چکا ہے تو ان منکرین حشر کے انکار حشر سے کچھ نہیں ہوسکتا بلکہ انتظام الٰہی کے موافق ناگہانی طور پر ایک دن اللہ کے رو برو ان لوگوں کو کھڑا ہونا پڑے گا اور حشر کے انکار کا جرم ان لوگوں کو اللہ کی رحمت سے دور ڈال دے گا جس کا نتیجہ وہی ہوگا جو سورة الحاقہ کے حوالہ سے اوپر گزرا۔ صحیح مسلم 5 ؎ میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جب تہجد کی نماز کے لئے اٹھا کرتے تھے تو آخری آیت کے لفظوں کو دعا میں شریک کرلیا کرتے تھے۔ (2 ؎ جامع ترمذی ابواب صفۃ جھنم ص 96 ج 2۔ ) (3 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة ص ‘ ص 178 ج 2۔ ) (4 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة النجم ص 731 ج 2۔ ) (1 ؎ بحوالہ تفسیر الدر المنثور ص 366‘ 367 ج 4۔ ) (2 ؎ اس بحث کی تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیرہذا جلد 4 ص 285 سورة حج۔ ) (3 ؎ اس بحث کی تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیرہذا جلد 4 ص 285 سورة حج۔ ) (4 ؎ صحیح مسلم فصل فی بیان ان الاعضاء منطقتہ شاھدۃ یوم القیمۃ ص 409 ج 2۔ ) (5 ؎ صحیح ملم باب صلوٰۃ النبی ﷺ و دعائہ باللیل ص 363 ج 1۔ )
Top