Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 49
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا١٘ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب مَسَّ : پہنچتی ہے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ دَعَانَا ۡ : کوئی تکلیف وہ ہمیں پکارتا ہے ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلْنٰهُ : ہم عطا کرتے ہیں اس کو نِعْمَةً : کوئی نعمت مِّنَّا ۙ : اپنی طرف سے قَالَ : وہ کہتا ہے اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دی گئی ہے عَلٰي : پر عِلْمٍ ۭ : علم بَلْ هِىَ : بلکہ یہ فِتْنَةٌ : ایک آزمائش وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے نعمت بخشتے ہیں تو کہتا ہے ہے یہ تو مجھے (میرے) علم (ودانش) کے سبب ملی ہے نہیں بلکہ وہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے
49۔ 52۔ اوپر ذکر تھا کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان مشرکوں کے دل میں ایک نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور جب ان کے بتوں کا اچھا ذکر ان کے کانوں تک پہنچ جاتا ہے تو یہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں ان آیتوں میں فرمایا کہ ان لوگوں کی یہ عادت شیطان کے بہکانے سے ہے کیونکہ ان کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح سے بسی ہوئی ہے کہ تکلیف کے وقت سوا اللہ کے ان کے بت کچھ کام نہیں آتے اس واسطے تکلیف کے وقت خالص اللہ ہی سے یہ لوگ رفع تکلیف کی التجا کرتے ہیں لیکن یہ ان لوگوں کی ناشکری ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ان کی وہ تکلیف رفع کردیتا ہے تو کبھی اس رفع تکلیف کو اپنی تدبیروں کے اثر سے اور کبھی اپنی عزت اور شرافت سے سمجھنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو بالکل بھول جاتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احسانات اس آزمائش کے لئے ہیں کہ کون شخص اس کے احسانات کا شکر ادا کرتا ہے اور کون شخص ناشکری میں پکڑا جاتا ہے اور یہ خوب یاد رہے کہ ان سے پہلے بھی ایسے ناشکرے لوگ گزر چکے ہیں جنہوں نے اپنی ناشکری کی سزا بھگت لی اور اب بھی وہی عادت الٰہی جاری ہے اس عادت الٰہی کے موافق جب ان لوگوں کی سزا کا وقت آجائے گا تو یہ لوگ کہیں بھاگ کر اللہ کو تھکا نہیں سکتے یہ تو ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے کی بات ہے کہ دنیا میں بہت سے نافرمان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خوشحالی دے رکھی ہے اور بہت سے فرماں بردار لوگوں کو تنگ دستی اس لئے یہ خیال بھی ان لوگوں کا غلط ہے کہ ان کی عزت اور شرافت کے سبب سے اللہ تعالیٰ ان کی ہر ایک تکلیف کو راحت سے بدل دیتا ہے پھر آخر کو فرمایا ایسی باتوں کو وہی سمجھتے ہیں جو اللہ کی قدرت کے قائل ہیں یہ قدرت الٰہی کے منکر لوگ ایسی باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہیں صحیح بخاری 1 ؎ ومسلم کے حوالہ سے عمر ؓ بن عوف انصاری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کے لوگوں کی تنگ دستی کا کچھ اندیشہ نہیں ہے اندیشہ تو یہ ہے کہ خوشحالی کی ناشکری میں پہلی امتوں کی طرح کہیں یہ لوگ بھی ہلاک نہ ہوجائیں اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احسانات اس آزمائش کے لئے ہیں کہ کتنے آدمی اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کتنے آدمی ناشکری کے وبال میں پکڑے جاتے ہیں۔ (1 ؎ صحیح مسلم کتاب الزھد ص 407 ج 2۔ )
Top