Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 63
لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لَهٗ مَقَالِيْدُ : اس کے پاس کنجیاں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں اور جنہوں نے خدا کی آیتوں سے کفر کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں
63۔ مجاہد و قتادہ کا قول 4 ؎ ہے کہ مقالید زبان فارسی میں کنجیوں کو کہتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بھی اس کی تفسیر مفاتیحھا فرمایا ہے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں آسمان و زمین کے خزانوں کی کنجیاں میں جو لوگ قرآن کی نصیحت کے منکر ہیں وہ بہت بڑا نقصان اٹھائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ان خزانوں کے بہت بڑے حصہ سے وہ محروم ہیں ابن ماجہ ؎ 1 ؎ کے حوالہ کی ابوہریرہ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے ایک ٹھکانہ جنت میں اور ایک دوزخ میں پیدا کیا ہے جو شخص اپنے شرک کے سبب سے ہمیشہ کے لئے دوزخی قرار پائے گا اس کو سوا دوزخ کے عذاب کی تکلیف کے یہ بڑا نقصان پہنچے گا کہ اس کا جنت کا ٹھکانا کسی جنتی شخص کو مل جائے گا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں میں سے جو نعمتیں دنیا میں پیدا کی ہیں وہ تو ہمیشہ رہنے والی نہیں اور جو نعمتیں ان خزانوں میں کی ہمیشہ رہنے والی ہیں وہ قرآن کے منکر لوگوں سے چھینی جا کر دوسروں کو مل جائیں گی اس سبب سے یہ لوگ بڑے ٹوٹے میں ہیں۔ (4 ؎ التفسیر الدر المنثور ج 5 ص 333۔ ) (1 ؎ روی ھذا المعنی فی ابن کثیر ج 4 ص 60 بسند احمد و النسائی۔ )
Top