Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 110
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کام کرے سُوْٓءًا : برا کام اَوْ يَظْلِمْ : یا ظلم کرے نَفْسَهٗ : اپنی جان ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ : پھر بخشش چاہے اللّٰهَ : اللہ يَجِدِ : وہ پائے گا اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا (اور) مہربان پائے گا
(110 ۔ 113) ۔ یہ آیتیں بھی طعمہ کے قصے سے متعلق ہیں ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے طعمہ کو چوری کے گناہ سے اور ایک شخص بری پر جو اس نے چوری کا بہتان لگایا تھا۔ اس طے اور طعمہ کے قبیلے کے لوگوں کو جھوٹی گواہی کے گناہ سے توبہ استغفار کرنے کی رغبت دلائی ہے اور فرمایا ہے کہ کبیرہ، صغیرہ جس طرح کے گناہوں سے جو کوئی توبہ کرے گا اللہ ایسا غفور رحیم ہے کہ وہ فورًا ہر ایک گناہ گار کی خالص نیت کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس توبہ کرنے والے شخص کے سب گناہ معاف کردیتا ہے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث اوپر گزرچکی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان جب مردود ٹھہرا جا کر آسمان بر سے نکالا جانے لگا تو اس نے قسم کھا کر اللہ تعالیٰ کے روبرو اپنا یہ پکار ارادہ ظاہر کیا کہ انسان کے جسم میں جب تک جان رہے گی وہ ملعون انسان کے بہکانے اور اس کی عقبیٰ کے خراب کرنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قسم کھا کر اس ملعون کے اس ارادہ کا یہ جواب دیا کہ ہر طرح کے گناہ کے بعد انسان جب تک توبہ استغفار نہ کرے لگا تو میں بھی اس کی توبہ قبول کرنے اور اس کے گناہوں کے معاف کردینے میں کسی طرح کا دریغ نہ کروں گا 1۔ یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی پوری تفسیر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے گنہگاروں کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو قرآن کی نعمت کی قدر جتائی اور فرمایا کہ طعمہ کی قوم کے لوگوں نے تو جھوٹی گواہی دے کر غلط فیصلہ کرانے کی کوشش کی تھی مگر اے رسول اللہ کے یہ اللہ کا تم پر بڑا افضل اور اس کی بڑی رحمت ہے اس معاملہ میں اور بدر کے قیدیوں کے فدیہ کے معاملہ میں جہاں ایسا غلطی کا موقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فورا بذریعہ وحی کے اس غلطی کو رفع کر کے معاملہ کی صحیح صورت تم کو بتلا دیا ہے۔ اس طرح کی آیتوں سے ان علماء کے قول کی تاید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول بعض فیصلے اپنے اجتہاد سے بھی کرتے تھے اور اس اجتہاد میں اگر کچھ خطا واقع ہوجاتی تھی تو فورا اس کی اصلاح بذریعہ وحی کے ہوجا یا کرتی تھی بر خلاف امت کے مجتہدوں کے اجتہاد کے کہ اس کی حالت ایسی یقینی نہیں ہے۔ اسی واسطے مجتہدین امت نے احتیاطاً اپنے بعض قولوں سے رجوع اختیار کیا ہے اور بعض مسئلوں میں قول قدیم اور قول جدید اپنے یہ دو قول قرار دئیے ہیں تاکہ ایک قول کی اصلاح دوسرے قول سے ہوجائے۔ اپنے رسول کی تسکین کے لئے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ اے رسول اللہ کے تم اگر غلط رو داد پر فیصلہ کردیتے تو اس کا وبال ان ہی لوگوں پر ہوتا جنہوں نے وہ غلط روداد گھڑی تھی تمہارے اوپر اس کا کچھ وبال نہیں تھا کیونکہ تمہارا فیصلہ تو ظاہری روداد پر ہوتا لیکن یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے یہ نوبت نہیں آنے دی اور جو بات تم کو معلوم نہیں تھی وہ عین وقت پر بذریعہ وحی کے تم کو جتلا دی۔ اوپر گذرچکا ہے کہ قرآن کے ساتھ جہاں حکمت کا لفظ آتا ہے تو اس کے معنی حدیث کے ہوتے ہیں۔
Top