Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ : تمہیں وصیت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَوْلَادِكُمْ : تمہاری اولاد لِلذَّكَرِ : مرد کو مِثْلُ : مانند (برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورتیں فَاِنْ : پھر اگر كُنَّ : ہوں نِسَآءً : عورتیں فَوْقَ : زیادہ اثْنَتَيْنِ : دو فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے ثُلُثَا : دوتہائی مَا تَرَكَ : جو چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانَتْ : ہو وَاحِدَةً : ایک فَلَھَا : تو اس کے لیے النِّصْفُ : نصف وَلِاَبَوَيْهِ : اور ماں باپ کے لیے لِكُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے السُّدُسُ : چھٹا حصہ 1/2) مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا (ترکہ) اِنْ كَانَ : اگر ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد وَّوَرِثَهٗٓ : اور اس کے وارث ہوں اَبَوٰهُ : ماں باپ فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا الثُّلُثُ : تہائی (1/3) فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَهٗٓ : اس کے ہوں اِخْوَةٌ : کئی بہن بھائی فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا السُّدُسُ : چھٹا (1/6) مِنْۢ بَعْدِ : سے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْ بِھَآ : اس کی وصیت کی ہو اَوْ دَيْنٍ : یا قرض اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ وَاَبْنَآؤُكُمْ : اور تمہارے بیٹے لَا تَدْرُوْنَ : تم کو نہیں معلوم اَيُّھُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ لَكُمْ : نزدیک تر تمہارے لیے نَفْعًا : نفع فَرِيْضَةً : حصہ مقرر کیا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
صحاح ستہ اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت جابر ؓ سے ان آیات کی شان نزول جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ خود حضرت جابر ؓ بیمار تھے آنحضرت ان کی خیر و عافیت کی خبر کو تشریف لائے اور حضرت ابو بکرصدیق ؓ بھی آنحضرت کے ساتھ تھے اتنے میں حضرت جابر ؓ کو غش آگیا۔ آنحضرت نے ان کا یہ حال دیکھ کر پانی منگواکر وضو کیا اور وضو کا بچا ہوا پانی حضرت جابر ؓ پر چھڑکا۔ جس سے حضرت جابر ؓ کو ہوش آیا۔ اور حضرت جابر ؓ نے اپنے مال کی تقسیم کی بابت آنحضرت سے مسئلہ پوچھا 2۔ اسی طرح سعد بن ربیع ؓ کی بی بی نے بھی آنحضرت سے فریاد کی تھی کہ سعد بن ربیع ؓ کے بھائی نے سب مال سعد ؓ کا لے لیا ہے۔ سعدبن ربیع ؓ کی دنوں بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا۔ اور ام کجہ نے فریاد کی تھی جس کا ذکر اوپر گذر چکا 1۔ اس طرح کی تقسیم کے سوالات پیش آنے سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں 2 اور طرح طرح کے حصوں کو اس آیت اور اس کے مابعد کی آیت اور آخر سورت کی آیت میں بیان فرمایا۔ منجملہ اس کے اس آیت میں دو میراثیں بیان فرمائی اولاد کی اور ماں باپ کی۔ اولاد میں اگر لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں تو لڑکوں کو دوسرا حصہ ہے اور لڑکیوں کا اکہرا اور اگر میت کا کوئی لڑکا نہ ہو بلکہ فقط ا کی لڑکی اولاد میں ہو تو آدھا مال لیوے اور کئی لڑکیاں ہوں تو دو تہائی مال برابر بانٹ لیں اگر میت کی اولاد ہے یا ایک سے زیادہ بھائی بہن ہیں تو ماں کا چھٹا حصہ اور دونوں نہیں تو تہائی اسی طرح میت کی اگر اولاد ہے تو باپ کا چھٹا حصہ ہے۔ اور اولاد نہیں ہے تو ماں کو تہائی مال دیا جا کر باپ کو باقی سب مال مل جائے گا۔ میت نے کچھ وصیت کی ہو یا اس کے ذمہ کچھ قرض ہوا تو اجرائے وصیت اور ادائے قرضے کے بعد یہ حصے ہوں گے۔ آخر آیت کا یہ مطلب ہے کہ میت کا نفع ماں۔ باپ اور بیٹے دونوں سے متعلق ہے اس لئے وہ طریقہ جس میں مال بغیر وصیت کے فقط بیٹے کو ملتا تھا۔ اور وصیت ماں باپ کے لئے ہوتی تھی۔ آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے موقوف کردیا۔
Top