Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 141
اِ۟لَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْۤا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ١ۖ٘ وَ اِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ١ۙ قَالُوْۤا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْكُمْ وَ نَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِیْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا۠   ۧ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَتَرَبَّصُوْنَ : تکتے رہتے ہیں بِكُمْ : تمہیں فَاِنْ كَانَ : پھر اگر ہو لَكُمْ : تم کو فَتْحٌ : فتح مِّنَ اللّٰهِ : اللہ (کی طرف) سے قَالُوْٓا : کہتے ہیں اَلَمْ نَكُنْ : کیا ہم نہ تھے ؟ مَّعَكُمْ : تمہارے ساتھ وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ قَالُوْٓا : کہتے ہیں اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ : کیا ہم غالب نہیں آئے تھے عَلَيْكُمْ : تم پر وَنَمْنَعْكُمْ : اور ہم نے منع کیا تھا (بچایا تھا) تمہیں مِّنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مسلمان (جمع) فَاللّٰهُ : سو اللہ يَحْكُمُ : فیصلہ کرے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَنْ يَّجْعَلَ : اور ہرگز نہ دے گا اللّٰهُ : اللہ لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : مسلمانوں پر سَبِيْلًا : راہ
جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں اگر خدا کی طرف سے تم کو فتح ملے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کو فتح نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے ؟ اور تم کو مسلمانوں کے ہاتھ سے بچایا نہیں ؟ تو خدا تم میں قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا اور خدا کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا
اوپر منافقوں کے یہود سے میل جول رکھنے کا ذکر تھا اس آیت میں اس سبب فرمایا کہ یہ لوگ اپنے ضعیف الایمان ہونے کے سب سے دور لے ہو رہے ہیں۔ مسلمان اور یہود دونوں فریق سے ظاہر دوستی اس لئے جتلاتے ہیں کہ جس فریق کا غلبہ ہو اس سے کہہ دیں کہ ہم تم تمہاری ہی خیر مناتے تھے۔ لیکن ان ظاہر باتوں سے دنیا میں ان کے جان و مال کی کچھ حفاظت ہوجائے گی عقبیٰ میں ان اوپری باتوں سے کام نہیں چلتا وہاں تو آدمی کے سب دل کے بھید اس کے آجائیں گے اور ان دل کے بھیدوں کے موافق قیامت کے دن مسلمان اور منافق دونوں فریق کا فیصلہ اللہ تعالیٰ غیب دان کے روبرو ہوگا اس وقت ان کو اس دھوکے بازی کی قدر کھل جائے گی۔ یہ بھی فرمایا کہ اے مسلمانوں یہ منافق لوگ اس دور لے اپنے میں بھی کچھ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ ان کے دل میں یہ بسی ہوئی کہ ذرا بھی تمہارا ہوا بگڑتی ہوئی دیکھیں تو تمہارے مخالفوں سے پورے طور پر جا ملیں مگر یہ خیال ان کا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا مددگار ہے کبھی آزمائش کی طرح احد کی لڑائی کی سی ہل چل لشکر اسلام میں آن پڑے تو وہ اور بات ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے آخر غلبہ لشکر اسلام کو ہی رہے گا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے آخر کو یہود منافق سب مغلوب اور ذلیل ہوئے۔ اور مسلمان جب تک احکام الٰہی کے پورے پابند رہے اس وقت تک لشکر اسلام کا غلبہ دن بدن بڑھتا گیا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد نسائی میں براء بن عازب کی اور دلائل النبوۃ بیہقی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں اور صحابہ کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ احزاب کی لڑائی کے وقت مدینہ کے گرد جب خندق کھودی جا رہی تھی اور اس میں ایک سخت پتھر نکلا تھا جس کو خود آنحضرت ﷺ نے تین دفعہ پھاؤڑا مار کر توڑا اور پہلا پھاؤڑا مارنے کے وقت کسی قدر وہ پتھر ٹوٹا تو آپ نے ملک شام فتح ہونے کی اور پھر فارس اور یمن فتح ہونے کی خبر دی اور بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے مجھ کو خبر دی ہے کہ یہ ملک میری امت کے ہاتھ پر فتح ہوں گے 1۔ اور یہ بھی ہے کہ اس خبر کو سن کر پکے مسلمان بہت خوش ہوئے اور منافقوں نے یہ کہا کہ دشمنوں کے گھیرے کے سبب سے پیشاب پاخانہ جانے کو ٹھکانہ تو ہمیں نظر میں نہیں آتا۔ پھر ہمیں کیونکر یقین آوے کہ یہ ملک فتح ہوں گے 1 اس سے معلوم ہوا کہ آخر کو مسلمانوں کے غالب ہونے کی حدیثوں سے منافق لوگ کچھ بیخبر نہیں تھے اس کے کانوں تک اللہ کے رسول کی یہ پیشین گوئی پہنچ چکی تھی مگر ضعف ایمان کے سب سے ان لوگوں کو اس پیشین گوئی کا یقین نہیں تھا۔ اس واسطے یہ لوگ یہود سے دوستی رکھتے تھے کہ شاید کبھی مسلمان مغلوب ہوجائیں اور یہود کا غلبہ ہوجائے تو اس وقت یہ دوستی کام آئے۔
Top