Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 144
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوا : نہ پکڑو (نہ بناؤ) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع اَوْلِيَآءَ : دوست مِنْ دُوْنِ : سوائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مسلمان (جمع) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَجْعَلُوْا : کہ تم کرو (لو) لِلّٰهِ : اللہ کا عَلَيْكُمْ : تم پر (اپنے اوپر) سُلْطٰنًا : الزام مُّبِيْنًا : صریح
اے اہل ایمان ! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا صریح الزام لو۔
(144 ۔ 147) ۔ اوپر ذکر تھا کہ منافق لوگ یہود سے میل جول رکھتے تھے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو منع فرمایا کہ وہ منافقوں کی سی عادت اختیار نہ کریں تفسیر خازن وغیرہ میں ان آیتوں کی شان نزول جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بعض انصار اور یہود میں ہجرت سے پہلے کی دوستی اور دودھ پلانے کی رشتہ داری تھی ان انصارے اس تعلق کے باقی رکھنے کا مسئلہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا 3 اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی اور فرمایا کہ دین کے مخالف لوگوں سے میل جول رکھنا منافقوں کی عادت ہے جن کا ٹھکانہ جہنم کا ساتواں طبقہ ہے جس میں اور طبقوں سے زیادہ عذاب ہے کیونکہ ان لوگوں نے دنیا میں دلی کفر کے سوا ظاہری اسلام جتلا کر ایک طرح کی دغا بازی اللہ اور اللہ کے رسول سے کی تھی جس کے سبب سے ان کی سزا میں قیامت کے دن سختی ہوگی اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص منافقوں کی سی عادتیں اختیار کرتا ہے وہ اللہ کی خفگی اور اس کے عذاب کا ایک سبب مول لیتا ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے جنت کے ساتوں طبقوں کے درجات اور دوزخ کے ساتویں طبقوں کو درکات کہتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھے رفیق کی مثال مشک پاس رکھنے والے شخص کی ہے کہ کبھی نہ کبھی اس سے کچھ فائدہ ضرور پہنچے گا زیادہ نہیں خوشبو ہی کا فائدہ سہی اور برے رفیق کی مثال کھال نوچنے والے شخص کی سی ہے کہ کبھی نہ کبھی اس سے نقصان ضرور پہنچے گا۔ زیادہ نہیں تو کبھی کوئی آگ کا پتنگا اڑ کر آن پڑے گا۔ جس سے کپڑے جل جائیں گے 1۔ حاصل یہ ہے کہ نیک صحبت سے نیک اثر پڑنے کی امید ہے اور بری صحبت سے برا اثر پڑنے کا خوف ان آیتوں میں مخالف دین لوگوں سے میل جول رکھنے کی جو ممانعت ہے یہ حدیث اس کی تفسیر ہے۔ پھر فرمایا کہ دنیا میں تو یہ منافق لوگ یہود کی دوستی کے بھروسے پر ہیں لیکن عقبیٰ میں دوزخ کے عذاب سے بچانے کی مدد ان کو کسی سے نہ پہنچے گی یہ اس لئے فرمایا کہ کلمہ گو گناہ گاروں کو اپنے دوستوں سے شفاعت کی مدد ملے گی جس کا ذکر شفاعت کی صحیح 2 حدیثوں میں ہے جن منافق لوگوں کی اوپر مذمت تھی ان کی نجات کے لئے بطور استثنا کے یہ چار باتیں فرمائیں ایک تو یہ کہ ان لوگوں نے اب تک جو دو ولی کی باتیں کی ہیں ان پر یہ نادم ہوں عبد اللہ مغفل ؓ سے مستدرک حاکم میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پچھلے گناہوں پر انسان کا نادم ہونا یہی توبہ ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے 3۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مذامت کے بعد آئندہ برے کاموں سے بچنے اور نیک کاموں میں مشغول ہونے کی کوشش کی جائے تاکہ اس مذامت کی ظاہر میں صداقت ہوجائے اور نیکیوں سے پچھلی بدیوں کا کفارہ ہوجائے۔ معتبر سند سے امام احمد اور ترمذی میں ابوذر ؓ اور معاذ بن جبل ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسان سے کوئی برا کام ہوجائے تو اس کے بعد نیک کام ضرور کرنا چاہیے۔ تاکہ نیکی سے بدی کا کفارہ ہوجائے 4۔ تیسری بات یہ کہ اللہ کا سہارا مضبوط پکڑو جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں طاعت کے بجا لانے اور گناہ سے بچنے کے احکام جو نازل فرمائے ہیں دوزخی کو چھوڑ کر ان احکام کی پابندی مضبوطی سے کی جائے۔ معتبر سند سے صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پچھلی امتیں اللہ کے رسولوں سے اختلاف کرنے کے سبب سے ہلاکت میں پڑگئیں 1 اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول جو احکام شرعی کی طرف سے لاتے ہیں جب تک انسان مضبوطی سے ان احکام کی پابندی نہ کرے تو وہ ہلاکت میں پڑجائے گا۔ چوتھی بات یہ کہ دین یہ کہ دین کا جو کام کیا جائے وہ خالص اللہ کے حکم کی تعمیل میں عقبیٰ کے اجر کی نیت سے ہو دنیا کے دکھاوے کا اس میں کچھ دخل نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ دنیا کے دکھاوے کی شراکت کا کوئی عمل اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہے نسائی اور ابو داؤد میں معتبر سند سے ابو امامہ ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو کام خالص اللہ کے واسطے نہ ہو وہ اللہ کی بار گاہ میں مقبول نہیں ہوتا 2۔ اب آگے فرمایا کہ جن لوگوں میں یہ چار باتیں ہیں ان کی گنتی ان کامل ایمان داروں میں ہے جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے عقبیٰ میں بڑے بڑے اجر رکھے ہیں پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور اس کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا اس کی شکر گزاری میں اگر انسان نے اتنا کیا کہ اللہ کو برحق معبود جانا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا تو اللہ کو کچھ ضرور نہیں کہ پھر بھی ایسے لوگوں کے عقبیٰ کے عذاب میں پکڑے صحیحین کی معاذ بن جبل ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے 3۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اگر اللہ کا یہ حق بندوں سے ادا ہوگیا تو اللہ نے اپنے بندوں کا یہ حق اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ ان کو عقبیٰ کے عذاب سے بچائے 4۔ یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کی قدردانی یہ ہے کہ اس نے ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک اور اس سے بھی زیادہ ٹھہرایا ہے جیسی جس کی نیت ویسا ہی اس کا ثواب چناچہ اس کا ذکر صحیح بخاری وغیرہ 5 میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے آیا ہے ” اللہ سب جانتا ہے “ کا یہ مطلب یہ ہے کہ اس کو دل کے ارادہ اور نیت کا حال معلوم ہے اسی واسطے اس نے دل کے ارادہ اور نیت کے موافق ثواب کے درجے ٹھہرائے ہیں۔
Top