Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 66
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاۙ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّا كَتَبْنَا : ہم لکھ دیتے (حکم کرتے) عَلَيْهِمْ : ان پر اَنِ : کہ اقْتُلُوْٓا : قتل کرو تم اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ اَوِ اخْرُجُوْا : یا نکل جاؤ مِنْ : سے دِيَارِكُمْ : اپنے گھر مَّا فَعَلُوْهُ : وہ یہ نہ کرتے اِلَّا : سوائے قَلِيْلٌ : چند ایک مِّنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ فَعَلُوْا : کرتے مَا : جو يُوْعَظُوْنَ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس کی لَكَانَ : البتہ ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَشَدَّ : اور زیادہ تَثْبِيْتًا : ثابت رکھنے والا
اور اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کر ڈالوا یا اپنے گھر چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر یہ اس نصیحت پر کار بند ہوتے جو ان کو کیجاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر اور (دین میں) زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا
(66 ۔ 68) ۔ اوپر اللہ کے رسول کی فرمانبرداری کا ذکر تھا ان آیتوں میں ان کی تاکید اور طرح سے فرمائی۔ تفسیر سدی وغیرہ میں ان آیتوں کی شان نزول کی بابت جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ کے گردونواح میں جو یہود رہتے تھے ان میں سے کسی نے بعض مسلمانوں کے روبرو ذکر کیا کہ ہمارے بڑوں پر بچھڑا پوجنے کی توبہ قتل قرار پائی۔ اور ہمارے بڑوں نے اس پر عمل کیا۔ مسلمانی شریعت میں تو ایسا سخت حکم کوئی بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں نے اس کا جواب دیا کہ ہمارے اوپر بھی اگر کوئی ایسا حکم نازل ہوتا تو ہم ضرور اس کی تعمیل کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں 1۔ اور فرمایا کہ حال کی شریعت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی فرمانبرداری لازم کردی ہے وہ بھی اسے مسلمانوں سے پوری نہیں ہوسکتی جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گذرا ایسی حالت میں قتل نفس یا جلا وطنی کا کوئی حکم حال کی شریعت میں نازل ہوتا تو بہت تھوڑے لوگ اس پر عمل کرتے پھر فرمایا حال کی شریعت میں جن باتوں کے کرنے اور نہ کرنے کا حکم ہے اگر حال کے مسلمان اس پر پوری پابندی نیک نیتی سے کریں گے تو ان کی بہتری اور ان کی فرمانبرداری کی مضبوطی کی نشانی ہے اور جب یہ لوگ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی توفیق سے ان کو ہمیشہ راہ راست پر قائم رکھے گا اور ان کے تھوڑے سے عملوں کا بہت سا ثواب اپنے پاس سے عطا فرمائے گا۔ صحیح بخاری و مسلم، موطا اور صحیح ابن حبان میں حضرت عائشہ ؓ اور ام سلمہ ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایسا تھوڑا سے عمل بھی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جس پر آدمی ہمیشہ قائم رہے 2۔ اسی واسطے فرمایا کہ ہم ” ان کو چلاویں راہ سیدہی “۔ اور ہمیشہ کا تھوڑا سا عمل بھی اللہ کو بہت پسند ہے۔ اس لئے ان کے تھوڑے سے عملوں پر اللہ تعالیٰ ان کو ایسا اجر دے گا جو ان کی نجات کا باعث ہوگا۔ جس نصیحت میں ثواب و عذاب کا ذکر ہو اس کو وعظ کہتے ہیں قرآن و حدیث میں ان دونوں باتوں کا ذکر ہے اس لئے قرآن و حدیث کو وعظ کہتے ہیں۔
Top