Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
مومنو ! (جہاد کے لئے) ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو
(71 ۔ 74) ۔ اوپر ذکر تھا کہ بعض مسلمانوں نے یہود کی توبہ قتل سے قبول ہونے کا حال یہود سے سن کر یہ کہا تھا کہ ہمارے اوپر کی اگر کوئی ایسا حکم نازل ہوتا تو ہم ضرور اس کی تعمیل کرتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی اور ان میں جہاد کا ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قتل کا سا حکم تو اس شریعت میں نہیں ہے۔ لیکن اس شریعت میں دین کی ترقی کے لئے دین کے مخالفوں سے لڑنے کا حکم ہے جس کو اجر کمانا ہو وہ اس حکم کی تعمیل میں کوشش اور جرأت کرلے لغت میں جہاد کے معنی مشقت کے ہیں اور شرع میں جہاد اس لڑائی کو کہتے ہیں جو خاص دین کی ترقی کے لئے کی جائے۔ مشہور قول علماء کا یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جہاد فرض کفایہ ہے فرض کفایہ اس فرض کو کہتے ہیں کہ قوم کے بعض لوگوں کے عمل سے تمام قوم کے ذمہ سے اس فرض کا بوجھ سا قط ہوجائے صحاح ستہ کے چھیؤں کتابوں میں ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا شرعی جہاد وہ ہے جس میں فقط دین کی ترقی کے لئے لڑائی کی جائے۔ صرف دنیاوی فائدہ یا ناموری یا کسی بدلا لینے یا دکھاوے کے لئے جو لڑائی کی جائے گی۔ وہ شرعی جہاد نہیں ہے 1۔ خوف کی چیز سے بچنے کو حذر کہتے ہیں حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ ہتھیاروں سے فوج کی تعداد سے جب دشمن کا حملہ روکنے کے قابل ہوجاؤ تو پھر تھوڑے تھوڑے یا اکٹھے لڑائی کے لئے نکلو۔ پھر فرمایا بعض تم میں ایسے مسلمان بھی ہیں جو لڑائی پر جانے سے کچیاتے ہیں۔ اور جب تم کو کسی لڑائی میں کچھ صدمہ پہنچ جاتا ہے تو اپنی جان کی خیر منانے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نے بڑی خیر کی کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ نہ تھے ورنہ ہمارا بھی یہی حال ہوتا جو ان کا ہوا۔ اور جب کسی لڑائی میں تم کو کچھ کامیابی ہوتی ہے تو بالکل غیروں کی طرح حسد سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ کاش ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تاکہ ہم بھی اس کامیابی کے حصہ دار ٹھہرتے ان کچے مسلمانوں کی حالت سے نفرت دلانے کے بعد پکے مسلمانوں کو دین کی لڑائی میں یوں ترغیب دلائی کہ جن لوگوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کو بیچ کر عقبیٰ کا اجر مول لیا ہے ان کو دین کی لڑائی پر ہمت باندھنی چاہیے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ ” لڑیں اللہ کی راہ میں “ کا ارشادان ہی کچے مسلمانوں کے حق میں ہے کہ پکے مسلمانوں کی فتح اور شکست پر گھر میں بیٹھ کر باتیں بنانے سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ ان لوگوں کو چاہیے کہ پکے مسلمان بن جائیں اور نیک نیتی سے دین کی لڑائی لڑیں۔ کیونکہ نیک نیتی کی دین کی لڑائی میں جان دینا فتح پانا دونوں حالتیں اجر عظیم سے خالی نہیں۔ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا نیک نیتی سے دین کی لڑائی لڑنے والوں کو ہر طرح فائدہ ہے خدا کی راہ میں جان دی تو جنت کمائی جیتے بچ کر گھر آئے تو عقبیٰ کا اجر جدا کمایا۔ اور لوٹ کا مال جدا ہاتھ آیا 1۔
Top