Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 84
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْكِیْلًا
فَقَاتِلْ : پس لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ لَا تُكَلَّفُ : مکلف نہیں اِلَّا : مگر نَفْسَكَ : اپنی ذات وَحَرِّضِ : اور آمادہ کریں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّكُفَّ : روک دے بَاْسَ : جنگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ اَشَدُّ : سخت ترین بَاْسًا : جنگ وَّاَشَدُّ : سب سے سخت تَنْكِيْلًا : سزا دینا
تو (اے محمد ﷺ تم خدا کی راہ میں لڑو تم اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں ہو اور مومنوں کو بھی ترغیب دو قریب ہے کہ خدا کافروں کی لڑائی کو بند کر دے اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی سخت ہے
(84 ۔ 87) ۔ اوپر گذر چکا ہے کہ احد کی لڑائی سے واپسی کے وقت ابو سفیان نے سال آئندہ بدر صغریٰ پر لڑائی کے لئے آنے کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدہ پر آنحضرت ﷺ سترہ صحابہ کو ساتھ لے کر وقت مقررہ پر بدر صغریٰ کو تشریف لے گئے اور تین روز تک وہاں قیام کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ابو سفیان وغیرہ کے دل میں رعب ڈال دیا۔ اس لئے یہ لوگ وعدہ کے موافق بدر صغریٰ پر نہیں آئے یہ بدر صغریٰ ایک مقام ہے جہاں سالانہ بازار بھرتا ہے۔ اس لڑائی کے سفر کے وقت آنحضرت ﷺ کے ترغیب دلانے پر ستر آدمی باوجود زخمی ہونے کے آنحضرت ﷺ کے ساتھ گئے تھے جن کی تعریف اوپر گذرچ کی ہے اس لئے ان آیتوں میں فرمایا کہ اسی طرح اے نبی اللہ کے تم مسلمانوں کو دین کی لڑائی پر ترغیب دلایا کرو باقی رہی فتح شکست وہ لشکر کی مدد پر منحصر نہی ہے۔ بلکہ فتح شکست اللہ کے حکم سے ہوتی ہے تم تو ان کو فقط دین کی لڑائی کی تاکید کردو اور تم بذات خود اللہ کی راہ میں لڑو۔ اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ یہ جو فرمایا قریب ہے کہ ” اللہ کے بند کرے لڑائی “ یہ ایک غیب کی خبر تھی۔ چناچہ اسی کے موافق ظہور ہوا کہ اس موقع پر ابو سفیان وغیرہ کوئی منکر لڑائی کو نہیں آیا۔ قرآن شریف کی آیتوں میں جگہ جگہ پچھلی امتوں کے تباہ اور برباد ہوجانے کا حال اور دوزخ کے عذاب کا حال یہ لڑائی سے پہلے لڑائی سے پس و پیش کرنے والے مسلمان اور مکہ کے مشرک سب سن چکے تھے اس لئے ان سب کی تنبیہ کے لئے فرمایا کہ اللہ کی لڑائی اور عذاب سخت ہے اس سے ہر ایک کو ڈرنا چاہیے ان آیتوں میں مکہ کے اہل شرک سے دین کی لڑائی کا حکم تھا اور ان اہل شرک میں لوگ ایسے تھے جو مسلمانوں کے قرابت دار بھی تھے اور ان کو مسلمانوں کی لڑائی سے کچھ واسطہ بھی نہ تھا۔ اس واسطے لڑائی کی آیتوں میں باہمی سفارش اور سلام اور دعا کا ذکر فرمایا۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ مکہ کے اہل شرک میں سے وہ لوگ جو لڑائی کے درپے ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول اور مسلمانوں کو مکہ سے نکالا تھا۔ ان آیتوں کا حکم ان سے خصوصیت رکھتا ہے مکہ کے بقیہ قرابت داروں اور صلح والے قبیلوں خزاعہ وغیرہ سے آپس کا سلوک منع نہیں ہے سورة ممتحنہ کی تفسیر میں اس کی زیادہ تفصیل آئے گی۔ اسی حکم کے موافق آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں اور اہل شرک کے قربت داروں میں عمل در آمد بھی جاری رکھا تھا۔ چناچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیٹی اسماء ؓ سے صحیحین میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اسماء ؓ کی والدہ حالت شرک میں مکہ سے مدینہ کو اپنی بیٹی سے ملنے آئیں انہوں نے ان کے ملنے سے اور کچھ تحفہ جو وہ اپنے ساتھ لائی تھیں اس کے لینے سے انکار کیا اور اپنی ماں کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ آنحضرت ﷺ نے جب یہ حال سنا تو اسماء ؓ سے سفارش فرما کر ان سب باتوں پر ان سے عمل کرا دیا 1۔ اسلام سے پہلے عرب میں سلام علیک کی جگہ حیاک اللہ کہنے کا دستور تھا جس کے معنی ہیں تو جیتا رہ اس سے یہ نہیں نکلتا تھا کہ اس جینے میں صحت و سلامتی بھی ہو یا نہ ہو۔ اس لئے اسلام میں حَیَّاکَ اللّٰہُ کی جگہ سَلاَمٌ عَلَیْکَ ٹھہرایا گیا۔ جو زندگی اور صحت و سلامتی سب کو شامل ہے۔ ابتداء میں سَلَامٌ عَلَیْکَ کرنا سنت کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے جماعت میں سے ایک شخص نے بھی سلام کرلیا تو کافی ہے اگر نہ کیا تو ایک سنت کا ترک ہوا اور سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت میں سے ایک شخص نے بھی جواب دے دیا تو سب کے ذمہ سے فرض ادا ہوگیا۔ ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا اے آدم تم فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم کہو پھر جو کچھ وہ جواب دیں وہی طریقہ تمہاری اولاد میں جاری رہنا چاہیے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم کہا۔ انہوں نے جواب میں کہا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ 2۔ معتبر سند سے ترمذی اور ابو داؤد میں عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لفظ سلام علیک سے دس نیکیوں کا ثواب ہوتا ہے اور والسلام علیک ورحمۃ اللہ سے بیس نیکیوں کا اور سلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سے تیس نیکیوں 3 کا اور ابوہریرہ ؓ کی حدیث معتبر سند سے ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص سلام علیک میں کوتاہی کرتا ہے وہ بڑا بخیل ہے 2۔ ترمذی، ابو داؤد اور نسائی وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مجلس میں جائے اس وقت بھی سلام کہے اور جب مجلس سے اٹھے اس وقت بھی السلام کہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے 3۔ معتبر سند سے اوسط طبرانی میں حذیفہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب ایک شخص مسلمان دوسرے سے مل کر جب سلام علیک و مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جس طرح خزاں کے موسم میں کسی پیڑ کے پتے جھڑ جاتے ہیں 4۔ اس سے معلوم ہوا گناہوں کی مغفرت کی امید سے ہر سلام علیک کے ساتھ مصافحہ بھی کرنا چاہیے ابوہریرہ ؓ کی حدیث اوپر گذری جس اس کے موافق مجلس سے اٹھ کر چلتے وقت بھی سلام علیک سنت ہے۔ اور حدیفہ ؓ کی اس حدیث کے موافق گناہوں کی مغفرت کی امید سے ہر سلام علیک کے ساتھ مصافحہ بھی کرنا چاہیے تو بعض یہ جو کہتے ہیں کہ چلتے وقت کا مصافحہ جائز نہیں ہے ان کا قول تردد طلب ہے۔ معتبر سند سے طبرانی میں انس ؓ کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کا یہ عمل درآمد تھا کہ جب کوئی صحابی سفر کر کے واپس آتا تھا تو بجائے مصافحہ کے اس سے معانقہ کیا کرتے تھے 5۔ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سوار پیدل سے اور راہ چلتا بیٹھے ہوئے شخص سے سلام علیک کرے۔ اسی طرح تھوڑے سے ہوں تو وہ بہت سے آدمیوں سے سلام علیکم کہیں 6۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ چھوٹی عمر والا شخص بڑی عمر والے سے سلام علیک کرے 7۔ ابو امامہ ؓ سے ترمذی اور ابوداؤد میں ایک روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص سلام علیک کی ابتداء کرے وہ اللہ کے نزدیک بہتر ہے ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے 8۔ تفسیر ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں سلمان فارسی ؓ کی روایت ناقابل اعتراض سند سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے السلام علیک کہا اس کے جواب میں آپ نے ورحمۃ اللہ بڑھایا۔ دوسرے نے السلام علیک ورحمۃ اللہ کہا اس کے جواب میں آپ نے ورحمۃ اللہ بڑھایا۔ تیسرے نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا تو آپ نے بھی جواب میں یہی لفظ فرمائے 9۔ یہ حدیث فحیوا باحسن منہا اور ردوھا کی تفسیر ہے۔ سلام علیک کے مسئلہ کی اس سے زیادہ تفصیل بڑی کتابوں میں ہے۔ تحیہ کے معنی دعا دینے کے ہیں جس کا مطلب آیت میں سلام علیک ہے مقیت کے معنی صاحب قدرت۔ حیب کے معنی حساب کرکے جزا دینے والا کہ کس نے سلام علیک کہا۔ اور کس نے ورحمۃ اللہ یا برکاتہ بڑھایا جن لوگوں سے لڑائی کا حکم ان آیتوں میں تھا۔ وہ بت پرست اور منکر حشر تھے اس واسطے ان کی تنبیہ کے لئے آخر پر توحید اور قسم کھا کر حشر کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے۔ پھر جب اس نے توحید اور حشر کے سچے ہونے کی خبر دی ہے۔ تو اسے سب کو ماننا چاہیے۔
Top