Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو ہے ہو حالانکہ خدا نے ان کو ان کے کرتوتوں کے سبب اوندھا کردیا ہے ؟ کیا تم چاہتے ہو کہ جس شخص کو خدا نے گمراہ کردیا ہے اس کو راستے پر لے آؤ ؟ اور جس شخص کو خدا گمراہ کر دے تم اس کے لیے کبھی بھی راستہ نہ پاؤ گے
(88 ۔ 91) ۔ صحیحین اور مسند امام احمد بن حنبل میں جو شان نزول آیتوں کی بیان کی گئی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جنگ احد میں ہزار آدمیوں میں سے سو آدمی جب عبد اللہ بن ابی منافق کے ساتھ لشکر اسلام سے جدا ہو کر مدینہ کو چلے آئے تو سات سو آدمی جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہ گئے تھے ان کے دو فرقے ہوگئے تھے ایک فرقہ تو یہ کہتا تھا کہ یہ تین سو آدمی عین وقت پر لشکر اسلام کا ساتھ چھوڑ کر ایک منافق کے بہکانے سے گھر جا بیٹھے اس واسطے اب وہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے۔ اب موقع پڑے تو ان کا قتل کرنا لازم ہے اور دوسرافرقہ یہ کہتا تھا کہ نہیں وہ ہمارے بھائی مسلمان ہیں نہ ہم ان سے لڑیں گے اور نہ ان کو قتل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا آپس کا اختلاف رفع ہوجانے کی غرض سے یہ آیت نازل فرمائی 1۔ اور فرمادیا کہ وہ لوگ جب تک تمہارا پورا ساتھ نہ دیں ان کو مسلمان نہ شمار کرنا چاہیے۔ اور ضرورحسب موقع ان کو قتل کرنا چاہیے اوپر جو شان نزول بیان کی گیا اس کے علاوہ اور شان نزول بھی ان آیتوں کی سلف سے منقول ہے۔ چناچہ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ کچھ عرینہ کے لوگ مدینہ میں آن کر داخل اسلام ہوگئے تھے اور پھر مدینہ کی آب و ہوا کے ناموافق ہونے سے مکہ چلے گئے اور مشرکو سے بھی مل گئے اور مسلمانوں کو بھی لکھا ہم تمہارے دین پر ہیں 1۔ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ کچھ لوگ مکہ میں تھے جنہوں نے ظاہری اسلام قبول کرلیا تھا۔ لیکن مشرکوں کی مدد کو تیار تھے۔ اور ہجرت پر آمادہ نہ تھے۔ لیکن یہ سب منافقوں کی قسمیں ہیں اس لئے ان روایتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔ حاصل مطلب یہ شان نزول کا یہ ہے کہ اوپر کی صحیح روایت کے موافق منافقوں کی ایک خاص قسم کی شان نزول میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور جتنے منافق ہیں ان سب پر آیتوں کا مطلب صادق آتا ہے ارکسہم کے معنی پچھلے قدموں ہٹا کر پہلی حالت پر لانا حاصل مطلب یہ ہوا کہ ان کی نیت کے فساد کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو حالت اسلام سے نکال کر حالت نفاق میں ڈال دیا ہے۔ ان کے اسلام کا خیال غلط ہے۔ بلکہ وہ تو اے مسلمانوں تم کو بھی اپنا سا کرلینے کی آرزو کرتے ہیں اس لئے نہ ایسے لوگوں سے میل جول رکھنا چاہیے نہ ان کی مدد کی خواہش کرنی چاہیے پہلی شان نزول کی بنا پر حتی یھاجروا کے معنی مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھ جب تک احد کی لڑائی کے دھوکے سے باز نہ آئیں گے اور خالص نیت سے لشکر اسلام کا ساتھ نہ دیں گے اور اس ساتھ رہنے کے لئے گھر چھوڑ کر لڑائی کے میدانوں میں نہ جائیں گے تو نہ ان کا شمار مسلمانوں میں ہوسکتا ہے۔ نہ ان کے جان و مال کی خیر مسلمانوں کے ہاتھ سے ہوسکتی ہے۔ اب ان منافقوں میں سے دو طرح کے لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا ہے۔ ایک صالح والوں کے عہد کو وہ بھی بالواسطہ صلح میں داخل ہیں جس طرح مثلاً صلح کے بعد صلح والے قریش اور ان کے ہم عہد بنومد لج دوسرے وہ لوگ جو لڑائی سے عاجز ہو کر اس بات پر قائم ہیں کہ نہ اپنی قوم کی طرف سے مسلمانوں سے لڑیں گے نہ مسلمانوں کی طرف سے کسی سے لڑیں گے۔ جس طرح قبیلہ بنو مد لج کہ نہ مسلمانوں سے لڑتے تھے۔ نہ قریش سے۔ پھر فرمایا جب تک یہ لوگ اس حالت پر قائم رہیں تو یہ اللہ کی ایک مصلحت ہے اس نے ان کو تمہاری لڑائی سے روک رکھا ہے۔ ان کے قریب ایک فرقہ فرمایا جگہ جو اپنی جان اور اپنا مال بچانے کے لئے ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ مشرک ہیں تفسیر سدی وغیرہ میں ہے کہ فتنہ کے معنی یہاں شرک کے ہیں 1 ان کا حکم یہ فرمایا کہ ” اگر وہ صلح پر قائم نہ رہیں تو ان کو قید کرلو۔ اور ماروا جہاں پاؤ کیوں کہ ان کی حالت اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک سند ٹھہرادی ہے۔ بعض مفسروں نے آیت فان اعتزالوکم کو آیت فاقتلوا الْمُشْرِکِیْنَ سے منسوخ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ لوگ عہد صلح پر قائم بھی رہیں تو ان سے لڑنا چاہیے۔ لیکن عہد و صلح والوں کا حکم مستثنیٰ کے طور پر اوپر گذر چکا ہے۔ اس لئے آیت مستثنیٰ کے حکم میں داخل ہے۔ منسوخ نہیں ہے۔
Top