Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 29
یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ١٘ فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا١ؕ قَالَ فِرْعَوْنُ مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَ مَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَكُمُ : تمہارے لئے الْمُلْكُ : بادشاہت الْيَوْمَ : آج ظٰهِرِيْنَ : غالب فِي الْاَرْضِ ۡ : زمین میں فَمَنْ : تو کون يَّنْصُرُنَا : ہماری مدد کرے گا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ : اللہ کے عذاب سے اِنْ جَآءَنَا ۭ : اگر وہ آجائے ہم پر قَالَ : کہا فِرْعَوْنُ : فرعون مَآ اُرِيْكُمْ : نہیں میں دکھاتا (رائے دیتا) تمہیں اِلَّا مَآ : مگر جو اَرٰى : میں دیکھتا ہوں وَمَآ : اور نہیں اَهْدِيْكُمْ : راہ دکھاتا تمہیں اِلَّا سَبِيْلَ : مگر راہ الرَّشَادِ : بھلائی
اے قوم ! آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو (لیکن) اگر ہم پر خدا کا عذاب آگیا تو (اسکے دور کرنے کے لئے) ہماری مدد کون کرے گا ؟ فرعون نے کہا میں تمہیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے اور وہی راہ بتاتا ہوں جس میں بھلائی ہے
29۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو شرک کے چھوڑنے اور توحید کے اختیار کرنے کا طریقہ لوگوں کو بتلاتے تھے اس کو تو فرعون نے اوپر کی آیتوں میں فسادی طریقہ بتلایا اور جس دہر یہ طریقہ پر آپ تھا کہ اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا اور لوگوں کو بت پرستی سکھاتا تھا اس طریقہ کو اس نے کہا کہ یہی بھلائی کی راہ ہے یہ باتیں فرعون کی کچھ اس سبب سے نہیں تھیں کہ فرعون یا اس کی قوم کو خدا کی خدائی یا حضرت موسیٰ کی نبوت کا کسی طرح یقین نہ آیا ہو بلکہ متواتر معجزے دیکھ کر فرعون اور اس کی قوم کے دلوں میں یہ بات یقینی طور پر آچکی تھی کہ جو باتیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ظہور میں آتی ہیں وہ باتیں بڑے بڑے جادوگروں سے جب نہیں ہوسکتیں ہیں تو بلاشک بغیر تائید غیبی کے وہ باتیں نہیں ہیں لیکن نخوت اور تکبر کے سبب سے وہ لوگ حضرت موسیٰ کی باتوں کو فساد کی باتیں بتلاتے تھے چناچہ سورة النمل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وجحدوا بھاوا استیقنتھا انفسھم ظلما و علوا جس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کو اگرچہ تائید غیبی جان گئے تھے مگر سرکشی اور نخوت کی راہ سے ان کو نہیں مانتے تھے اسی واسطے فرعون نے جب ڈوبتے وقت خدا کی خدائی کا اقرار کیا تو حضرت جبرئیل نے اس کے منہ میں مٹی بھر دی کہ عمر بھر تو جان بوجھ کر خدا کا منکر رہا اب بےوقت خدا کی خدائی کا اقرار کرنے سے کیا ہوتا ہے یہ قصہ سورة یونس میں گزر چکا ہے معتبر سند سے مسند امام احمد 1 ؎ اور طبرانی کبیر میں ابوامامہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت ایمان کی نشانی کیا ہے آپ نے فرمایا جب تجھ کو نیکی اچھی معلوم ہونے لگے اور برائی بری نظر آنے لگے اس وقت جان لیجیو کہ تو مسلمان ہے اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے بڑا عام قاعدہ بتلایا کیونکہ برائی میں کفر شرک بدعت اور تمام گناہ سب داخل ہیں اب جو لوگ ایسے ہیں کہ کفر اور شرک کی باتیں بھی ان کو اچھی معلوم ہوتی ہیں جس طرح فرعون اپنے دہریہ طریقہ کو بھلائی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی توحید کے طریقہ کو فساد بتلاتا تھا تو یہ درجہ تو کفر کا ہے اب بعد اس درجہ کے اس عام قاعدہ سے آدمی کو اپنا حال جانچنا چاہئے جس قدر شرعی برائی کا خوف اس کے دل سے اٹھ گیا اسی قدر اس کے ایمان میں خلل ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب الایمان الفصل الثالث ص۔ )
Top