Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 36
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَۙ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون يٰهَامٰنُ : اے ہامان ابْنِ لِيْ : بنادے میرے لئے صَرْحًا : ایک (بلند) محل لَّعَلِّيْٓ : شاید کہ میں اَبْلُغُ : پہنچ جاؤں الْاَسْبَابَ : راستے
اور فرعون نے کہا کہ ہامان میرے لئے ایک محل بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر راستوں پر پہنچ جاؤں
36۔ 37۔ ایمان دار قبطی کی نصیحت کے بیچ میں فرعون نے پہلی بات جو کہی تھی اسکا ذکر تو اوپر گزرا اس نصیحت کے بیچ میں فرعون کی دوسری بات ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ دہریہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کو آنکھ سے نہیں دیکھا اس لئے ہم اس کی ہستی کے قائل نہیں علمائے پابند شریعت نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ جس عقل کے بھروسہ پر تم لوگوں نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے کی ہستی کا انکار کیا ہے اس عقل کو تم نے آنکھوں سے کب دیکھا ہے جو تم عقل کی ہستی کے قائل ہو اگر یہ کہتے ہو کہ عقل کی نشانیاں دیکھ کر ہم نے عقل کا اقرار کیا ہے تو پھر یہ بتلاؤ کہ اس نشانیوں والی عقل کو اور خود تم کو کس نے پیدا کیا ہے کیا یہ سب کچھ اپنے پیدا کرنے والی کی ہستی کی نشانیاں نہیں ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے انکار میں تو فرعون دہریہ تھا مگر اس ملعون میں یہ بات دہریوں سے زیادہ تھی کہ یہ اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا۔ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ فرعون خدا کی ہستی کا منکر نہیں تھا کیونکہ اگر وہ خدا کی ہستی کا منکر ہوتا تو پھر خدا کے دیکھنے کے لئے یہ منار کیوں بنواتا لیکن سورة الشعرا میں گزر چکا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا تو فرعون نے صاف کہہ دیا تھا کہ فرعون کے سوا اگر دوسرا خدا تم قرار دو گے تو تم کو قید کردیا جائے گا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملعون خدا کی ہستی کا اس قدر منکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نام لینے کو بھی قید کردینے کے قابل جرم گنتا تھا اس کی زیادہ تفصیل سورة القصص میں گزر چکی ہے اور اہل تاریخ کے قول کے حوالہ سے سورة القصص میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ ہامان نے جب یہ منار بنا کر تیار کردیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنا پر مار کر اس کو گرا دیا جس کے نیچے فرعون کی قوم کے بہت سے آدمی دب کر مرگئے قتادہ 1 ؎ کا قول ہے کہ پکی اینٹوں کا بنانا پہلے پہل فرعون نے ہی نکالا ہے۔ تفسیر سدی میں اسباب السموت کے معنی آسمان کے راستوں 2 ؎ کے لئے ہیں۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ جب اس ایماندار قبطی نے فرعون کو موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے روکا اور قتل ناحق پر اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو فرعون نے اپنی قوم کو بہکانے کے لئے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ موسیٰ نے اپنے خدا کا ہونا جو کہا ہے میں تو موسیٰ کی اس بات کو جھوٹ جانتا ہوں پھر میں خدا کے عذاب سے کو نکر ڈرسکتا ہوں اس پر حکم دیتا ہوں کہ پکی اینٹوں کی ایک منار اونچی بنائی جائے تاکہ شاید میں آسمان کا راستہ ڈھونڈھ لوں اور موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں۔ شیطان نے جس طرح بت پرستی دنیا میں پھیلائی حضرت عبد اللہ بن عباس کی صحیح بخاری 3 ؎ کی روایت سے اس کا ذکر ایک جگہ گزر چکا ہے کہ قوم نوح میں کے کچھ نیک آدمی مرگئے جن کی آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا صدمہ قوم کے لوگوں کو بہت تھا شیطان نے پہلے تو قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی شکل کے بت بنا کر رکھ لئے جائیں تاکہ ان کی آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا رنج کچھ کم ہوجائے پھر قوم کے لوگوں کی چند پشت کے بعد بت پرستی کا رواج دنیا میں پھیلا دیا۔ برے کاموں کو بھلے کر کے دکھانے اور نیک راہ سے روکنے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اسی طرح کے شیطانی دھوکے میں آ کر فرعون نے اپنے آپ کو خدا کہلوایا اور بت پرستی پھیلائی اور شریعت موسوی کی باتوں کو خرابی کی باتیں بتلاتا تھا اور اپنے ان سب برے کاموں کو اچھا جانتا تھا۔ حضرت موسیٰ کے زندہ نہ رہنے کے داؤ کے لئے فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لڑکے قتل کرائے حضرت موسیٰ پر غالب آنے کے داؤ کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) اور جادو گروں کا مقابلہ کرایا آسمان پر چڑھنے کے لئے مینار کے بنانے کا حکم دیا مگر کسی داؤ میں اس کو کچھ کامیابی حاصل نہیں ہوئی اسی واسطے فرمایا فرعون کا جو داؤ تھا وہ مرنے کھپنے کا تھا۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثر ص 351 ج 5۔ ) (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 351 ج 5۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری باب وداولا سواعا و لایخوث و یعوق و نسرا ص 732 ج 2۔ )
Top