Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 69
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ اَنّٰى یُصْرَفُوْنَ٤ۖۛۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا تم نے اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی آیات اَنّٰى : کہاں يُصْرَفُوْنَ : پھرے جاتے ہیں
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں یہ کہاں بھٹک رہے ہیں ؟
69۔ 78۔ مشرکین مکہ یوں تو سارے قرآن کو کلام الٰہی نہیں مانتے تھے لیکن حشر اور قیامت کا ذکر جن آیتوں میں ہوتا تھا یا جن آیتوں میں شرک کی مذمت ہوتی تھی خاص کر ایسی آیتوں میں یہ لوگ بڑا جھگڑا کیا کرتے تھے اللہ نے اوپر کی آیتوں میں انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا تاکہ ان مشرکوں کی سمجھ میں آجائے کہ حضرت آدم کی پیدائش تو حشر کے نمونہ کے طور پر ہے کہ خاک کا پتلا بنایا گیا اور اس پتلے میں پھر روح پھونک دی گئی اور اولاد آدم کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت جتلانے کے لئے حشر کے نمونہ سے بھی مشکل طریقہ کو اختیار فرمایا ہے کہ مٹی کے اثر سے طرح طرح کے اناج اور ترکاریاں اور کھانے کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ چیزیں انسان کی غذا ہوتی ہیں اور اس غذا سے نطفہ اور نطفہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اب یہ آسانی سے سمجھ میں آجانے کی بات ہے کہ حشر کے نمونہ کے طور پر حضرت آدم (علیہ السلام) کی اور اس نمونہ سے بھی مشکل طور پر حضرت آدم کی اولاد کی پیدائش جب ہوچکی ہے تو حشر کے یقین لانے میں وہ کون سی بات مشکل رہ گئی جو ان مشرکوں کی سمجھ میں نہیں آتی اسی طرح جب انسان کو اور انسان کی ضرورت کی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا کہ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو پھر اس کی تعظیم میں دوسروں کو شریک ٹھہرانے کا کیا حق ہے۔ اس تفصیل سے سمجھانے کے بعد بھی کسی بات کا سمجھ میں نہ آنا تعجب کی بات ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں تعجب کے طور پر اپنے رسول سے فرمایا ہے کہ اے رسول اللہ کے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ باوجود اس طرح تفصیل سے سمجھانے کے بھی یہ مشرک لوگ کس طرح کی ہٹ دھرمی کرتے ہیں اور اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکالے جاتے ہیں پھر فرمایا کہ ابھی ان مشرکوں کو اس ہٹ دھرمی کے جھگڑوں کا انجام کچھ نہیں معلوم ہوتا جس وقت اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کے جرم میں ان لوگوں کو مجرموں کی طرح طوق اور زنجیر میں جکڑ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا اس وقت ان کو اس ہٹ دھرمی کی سب حقیقت کھل جائے گی پھر فرمایا کہ جن بتوں کی مذمت سے چڑ کر یہ لوگ آج اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں کل قیامت کے دن جب یہ مشرک اللہ کے رو برو کھڑے ہوں گے تو ان بتوں کے معبود بنانے سے صاف منکر ہوجائیں گے اور ان کا وہ انکار کچھ کام نہ آئے گا اور دوزخ میں ان کو جتلایا جائے گا کہ دنیا میں ہٹ دھرمی اور ناحق طور پر جو تم اتراتے تھے اور اللہ کی آیتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے آج یہ اسی کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑا پھر اپنے رسول کو ارشاد فرمایا۔ ان مشرکوں کے بیجا جھگڑے پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ ان مشرکوں پر ان کے بیجا جھگڑوں کا وبال اللہ کے وعدہ کے موافق دنیا میں پڑنے والا ہے فقط وقت مقررہ آنے کی دیر ہے وقت مقررہ آتے ہی یہ مشرک زیر ہوجائیں گے اور اللہ کے رسول کا بول بالا ہوگا اور اگر دنیا کے وبال سے بعضے لوگ ان میں سے بچ گئے اور کفر کی حالت میں مرگئے تو وہ عاقبت کے عذاب میں پکڑے جائیں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے بہت سے مشرک تو آنحضرت کے رو برو ہی زیر ہوگئے پھر صحابہ کے زمانہ میں بہت سے ملک فتح ہوئے اور جو لوگ حالت کفر پر رہے وہ دین و دنیا میں ذلیل ہوئے چناچہ بدر کی لڑائی میں ان مشرکوں میں کے بڑے بڑے سرکش جو حالت کفر پر مارے گئے ان کا دنیا و دین کا انجام صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم کی انس بن مالک کی روایت سے اوپر گزر چکا ہے کہ دنیا میں یہ لوگ نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتانے کے لئے اللہ کے رسول نے ان مشرکوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پا لیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے پچھلے نبیوں اور رسولوں کا تذکرہ فرما کر آنحضرت کی تسکین فرمائی کہ ہمیشہ سے اللہ کے نبی اور رسول ہوتے اور منکر لوگ ان سے جھگڑا کرتے آئے ہیں اور وقت مقررہ آنے کے ساتھ ہی اس طرح کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہوا ہے جس سے منکروں کو بڑا نقصان پہنچا ہے اور بعضے پچھلے نبی اور رسولوں کا حال تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مثال کے طور پر جگہ جگہ ذکر فرمایا ہے اور کتنے نبی اور رسولوں کا حال ذکر بھی نہیں فرمایا مسند امام 2 ؎ احمد صحیح ابن حبان مستدرک حاکم وغیرہ ابوذر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کل نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار گزرے ہیں جن میں تین سو پندرہ رسول ہوئے ہیں اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن ہشام کو اکثر علما نے ضعیف قرار دیا ہے اسی سبب سے ابن جوزی نے اسے موضوع لکھا ہے لیکن طبرانی اور ابن حبان نے ابراہمی بن ہشام کو ثقہ کہا ہے اسی واسطے جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کے موضوع ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔ بنائی ہوئی جھوٹی حدیث کو موضوع کہتے ہیں۔ مسند امام احمد کی سند میں یہ ابراہیم بن ہشام نہیں ہے لیکن مسند امام احمد کی روایتوں میں تین سو سے کچھ اوپر دس اور تین سو پندرہ رسولوں کا ذکر ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کا ذکر نہیں ہے اس مضمون کی ایک حدیث تفسیر ابن ابی حاتم میں ابو امامہ کی روایت سے بھی ہے لیکن اس کی سند میں علی بن یزید قاسم بن عبد الرحمن معن بن رفاعہ یہ تین راوی ضعیف ہیں اوسط طبرانی میں حضرت 1 ؎ علی سے روایت ہے کہ سوا ایک غلام حبشی نبی کے اور نبیوں کا حال اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بتلا دیا ہے اس حدیث کی سند میں جابر جعفی ہے جس کو اکثر علما نے ضعیف قرار دیا ہے آخر کو فرمایا کہ یہ مشرکین مکہ طرح طرح کے معجزوں کی فرمائش اور مسخرا پن کے طور پر عذاب کی جلدی جو کرتے ہیں تو ان کو جواب دیا جائے کہ معجزے رسولوں کے اختیار میں نہیں ہیں جو معجزہ ظاہر ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ظاہر ہوتا ہے اور عذاب کا وقت مقررہ جب آجائے گا تو اس عذاب کی جلدی کرنے والوں کو جو نقصان پہنچے گا وہ ان کو معلوم ہوجائے گا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے بدر کی لڑائی کے وقت اس وعدہ کا جو کچھ ظہور ہوا۔ صحیح بخاری و مسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ (1 ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص 566 ج 2۔ ) (2 ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی ذکر الانبیاء (علیہم السلام) ص 511۔ ) (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 357 ج 5۔
Top