Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
79۔ 80۔ اوپر انسان اور انسان کی بعضی ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے کا ذکر تھا اس تذکرہ میں فرمایا اللہ وہ ہے جس نے تمہارے فائدہ کے واسطے گائے اونٹ بکری یہ سب جانور پیدا کئے ان میں سے کسی پر سوار ہوتے ہو اور کسی کا گوشت کھاتے ہو اونٹ پر سوار بھی ہوتے ہیں اور اس کا گوشت بھی کھاتے ہیں اور دودھ بھی پیتے ہیں اور اس پر بوجھ لاد کر دور دور شہروں میں سفر کرتے ہیں مجاہد اور قتادہ 2 ؎ نے کہا کہ لادے پھرتے ہیں بوجھ ایک شہر سے طرف دوسرے شہر کی طرف یہ اونٹ کا حال ہے اور گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور دودھ پیتے ہیں اور بیلوں سے کھیتی کرتے ہیں اور بکری کا گوشت کھاتے ہیں اور دودھ پیتے ہیں اور پھر ان سب کے بال کاٹے جاتے ہیں ان سے برتنے کی چیزیں بنائی جاتی ہیں ان کی کھال طرح طرح کے کام میں لائی جاتی ہے جیسا کہ سورة الانعام اور سورة النحل میں اس کی تفصیل بیان ہوچکی ہے اسی واسطے اس جگہ اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر یہ حال بیان کیا اور فرمایا کہ واسطے تمہارے اور نفع ہیں مثلاً جیسے گھی اور پنیر وغیرہ خشکی کے سفر میں اونٹوں سے اور دریا کے سفر میں کشتیوں سے کام لیا جاتا ہے اس واسطے اونٹ کے ذکر کے ساتھ کشتی کا ذکر بھی فرمایا سورة المائدہ میں گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ نے بعضے جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑ کر ان پر سوار ہونے اور بوجھ لادنے کو حرام ٹھہرا رکھا تھا اسی طرح بعضے جانوروں کے گوشت کو وہ لوگ حرام جانتے تھے صحیح بخاری 3 ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ پہلے پہل یہ رسم ایک شخص عمرو بن لحی نے نکالی اب بعد اس کے مشرکین مکہ اسی رسم کے پابند تھے۔ سورة المائدہ کی آیتوں اور ابوہریرہ ؓ کی حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ جانور ان لوگوں کی راحت کے لئے پیدا کئے لیکن عمرو بن لحی نے شیطان کے بہکان سے اور باقی کے مشرکوں نے عمرو بن لحی کی رسم کی پابندی کے سبب سے اس رحت میں خلل ڈال کر بعضے جانوروں کی سواری اور بار برداری کو اور بعضے جانوروں کے گوشت کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں زبردستی بتوں کو شریک ٹھہرایا۔ (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 358 ج 5۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری باب قصۃ خزاعۃ ص 499 ج 1۔ )
Top