Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 81
وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ١ۖۗ فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُنْكِرُوْنَ
وَيُرِيْكُمْ : اور وہ دکھاتا ہے تمہیں اٰيٰتِهٖ ڰ : اپنی نشانیاں فَاَيَّ : تو کن کن اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیوں کا تُنْكِرُوْنَ : تم انکار کروگے
اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تو تم خدا کی کن کن نشانیوں کو نہ مانو گے
81۔ 85۔ اللہ نے انسان کی پیدائش انسان کی ضرورت کے کھیتی کے بوجھ لادنے کے سواری کے جانوروں کا ذکر فرما کر اس آیت میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی قدرت سے اللہ کے معبود حقیقی ہونے سے بیخبر ہیں ان کے خبردار کرنے کے لئے یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں یہ سب نشانیاں دیکھ کر بھی یہ بیخبر لوگ اپنی بیخبر ی سے باز نہیں آتے تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر یہ لوگ اللہ کی قدرت کی کون کون سی نشانیوں کا انکار کریں گے خود اپنی پیدائش کے منکر ہیں کہ سوا اللہ کے کسی اور کو ان کی پیدائش میں دخل ہے یا ان کی ضرورت کی چیزیں کسی اور نے پیدا کردی ہیں اور جب اللہ کے اس سوال کا جواب یہ لوگ نہیں دے سکے تو پھر جن بتوں کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں ان بتوں کو اللہ کی عبادت میں شریک کرنے کا کونسا حق حاصل ہے پھر فرمایا کہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ نشانی بھی عبرت کی نظر سے دیکھنے کے قابل ہے کہ پہلے لوگوں کی عمارتیں دیکھ کر سمجھیں کہ ان عمارتوں کی حیثیت سے وہ پچھلے لوگ قوت میں مال و متاع میں حال کے لوگوں سے بڑھ کر تھے لیکن اللہ اور اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کے سبب سے جب ان کے تباہ اور برباد ہونے کا وقت آگیا تو ان کی قوت ان کی مال داری ان کے کچھ کام نہ آئی اسی طرح اگر یہ لوگ بھی سمجھانے سے نہ مانیں گے اور اللہ کے رسول کی نافرمانی سے باز نہ آئیں گے تو یہی انجام ان کا ہوگا پھر فرمایا کہ اب تو یہ لوگ پچھلے لوگوں کی طرح اپنی رسموں کے پابند ہیں اور اللہ کے رسول کی نصیحت کو مسخرا پن میں اڑا دیتے ہیں۔ لیکن معلوم رہے کہ نصیحت کے سمجھنے کے وقت جب ہی تک ہے کہ غیب کی باتوں پر بغیر دیکھے آدمی ایمان لائے جب اللہ کا عذاب آجائے گا پھر نہ مشرک کا ایمان قبول ہوگا نہ گناہ گاروں کی توبہ قبول ہوگی اوپر گزر چکا ہے کہ عذاب الٰہی کے آنے کے بعد غرق ہوتے وقت فرعون ایمان لایا اور قبول نہ ہوا اور ترمذی 1 ؎ اور ابن ماجہ کی یہ حدیث بھی حضرت عبد اللہ بن عمر کی اوپر گزر چکی ہے کہ روح کے حلقوم میں پہنچنے اور موت کے فرشتوں کے نظر آنے سے پہلے مشرک کے اسلام اور گناہ گار کی توبہ کے قبول ہونے کا وقت مقرر ہے۔ ترمذی 1 ؎ اور مسند امام احمد وغیرہ کی روایتوں سے یہ بھی اوپر بیان ہوچکا ہے کہ قیامت کے قریب جب آفتاب مغرب کی طرف سے نکلے گا تو پھر توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا بیہقی نے کتاب بعث و نشور میں اور ابولیث سمر قندی نے اپنی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ مغرب سے آفتاب نکلنے کے بعد ایک سو تیس برس دنیا قائم رہے گی اور جن لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آفتاب مغرب سے نکلے گا ان کے جیتے جی ان کا اسلام اور ان کی توبہ قبول نہ ہوگی ان لوگوں کی جو اولاد اس زمانہ کے بعد پیدا ہوگی۔ جس زمانہ میں آفتاب کے مغرب سے نکلنے کی شہرت تھی تو اس شہرت کے مٹ جانے کے بعد ان نئی پیدائش کے لوگوں کا اسلام اور ان کی توبہ قبول ہوجائے گی۔ لیکن اور علما نے اس قول کو ضعیف اور بہت سے صحیح آثار کے مخالف قرار دیا ہے۔ چناچہ طبرانی اور مسند عبد بن حمید وغیرہ میں جو آثار ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آفتاب کے مغرب سے نکلتے ہی شیطان یہ کہے گا کہ یا اللہ تو جس کو حکم فرمائے میں سجدہ کرتا ہوں اور پھر اس روز سے نیک عمل کا نامہ اعمال میں لکھا جانا بند ہوجائے گا اور کراماً کاتبیں نامہ اعمال کے کاغذ لپیٹ کر آسمان پر لے جائیں گے اور اسی روز سے توبہ کا دروزاہ بند ہو کر قیامت تک نہ کھلے گا اب یہ ظاہر بات ہے کہ آفتاب کے مغرب سے نکلنے کے بعد بھی کوئی زمانہ نیک عمل کرنے کا ہوتا تو شیطان نیک لوگوں کے بہکانے سے سورج کے مغرب سے نکلتے ہی ناامید کیوں ہوجاتا اور نیک عمل کا لکھا جانا بند ہو کر فرشتے آسمان پر کیوں چلے جاتے اور توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کیوں بند ہوجاتا اگرچہ یہ آثار صحابہ کے قول ہیں لیکن یہ قاعدہ محدثین کا مشہور ہے کہ اس طرح کی غیب کی باتیں جو صحابہ کی ہیں وہ حدیث نبوی کے حکم میں ہوا کرتی ہیں کس لئے کہ اس طرح غیب کی باتیں بغیر وحی کے نہیں معلوم ہوسکتی ہیں اسی واسطے ایسے ابواب میں صحابہ جو کچھ روایتیں بیان کرتے ہیں وہ آنحضرت ﷺ سے سن کر روایت کرتے ہیں اب آگے فرمایا کہ دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے مجبوری کے وقت یہ امتحان کی حالت باقی نہیں رہتی اس لئے انتظام الٰہی میں کسی کا مجبور کا ایمان یا مجبوری کی توبہ قبول ہونے کے قابل نہیں ہے اسی واسطے پچھلے لوگوں نے مجبور کے وقت فرمانبرداری کا اقرار کیا ہے لیکن ان کے اس بےوقت کے اقرار نے ان کو آخرت کی خرابی سے کچھ نہ بچایا۔ (1 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی فضل التوبۃ والا ستغفار ص 215 ج 2۔ ) (1 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الانعام ص 155 ج 2۔ )
Top