Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zukhruf : 16
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ
اَمِ اتَّخَذَ : یا اس نے انتخاب کرلیں مِمَّا يَخْلُقُ : اس میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے بَنٰتٍ : بیٹیاں وَّاَصْفٰىكُمْ : اور چن لیا تم کو بِالْبَنِيْنَ : ساتھ بیٹوں کے
کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے خود تو بیٹیاں لیں اور تم کو چن کر بیٹے دے دئیے
16۔ 30۔ مشرکین مکہ نے بت پرستی کے کفر میں یہ کفر جمع کئے تھے ایک تو اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد ٹھہرایا تھا دوسرے اولاد کی قسم میں لڑکیوں کو خود اپنے حق میں اچھا نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو منسوب کرتے تھے تیسرے بغیر جانے بوجھے غیب کی باتوں میں دخل دیتے تھے کہ فرشتے مرد نہیں عورتیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں طرح طرح سے ان مشرکوں کو قائل کیا ہے پہلے فرمایا کہ کیا اللہ نے تم کو تو بیٹے دیئے اور اپنی ذات کے لئے بیٹیاں چھانٹیں خود تمہارا تو یہ حال ہے کہ لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سن کر منہ بنا لیتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف لڑکیوں کو نسبت دیتے ہو پھر فرمایا کہ لڑکی کی ذات جو گہنے پاتے میں پلے اور کام پڑے پر جس کے منہ سے پوری بات بھی نہ نکل سکے ایسی چیز کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہو۔ تفسیر قتادہ 1 ؎ میں عورتوں کی یہ ایک جبلی بات بیان کی گئی ہے کہ عورت جب کسی کو الزام لگانے کی غرض سے کوئی بات کہتی ہے تو اس طرح کی الٹی تقریر کرتی ہے کہ جس سے خود اسی پر الزام آتا ہے آخر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے یہ تو پوچھو کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا اس وقت یہ مشرک لوگ کیا وہاں آسمان پر موجود تھے انہوں نے دیکھا ہے کہ اللہ کے فرشتے مرد نہیں عورتیں ہیں یا اللہ ان مشرکوں پر کوئی کتاب آسمان سے اتاری ہے جس میں لکھا ہے کہ اللہ کے فرشتے عورتیں ہیں پھر فرمایا کہ نہ فرشتوں کی پیدائش کے وقت یہ مشرک موجود تھے نہ قرآن شریف سے پہلے کوئی کتاب اللہ تعالیٰ نے ان پر اتاری ہے بلکہ اپنے بڑوں سے جو کچھ انہوں نے سنا ہے وہی کہتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے اپنے بڑوں کو کرتے دیکھا ہے وہی کرتے ہیں اس واسطے سوا اس کے یہ لوگ اور کچھ جواب ہی نہیں دے سکتے کہ ہم اپنے بڑوں کی چال چلن پر ہیں اور یہ بات کچھ نہیں ہے جب سے دنیا میں شرک پھیلا ہے اور بت پرستی کی رسم پڑی ہے پچھلے لوگ بھی یہی کہتے آئے ہیں کہ بت پرستی اللہ کے ارادہ کے موافق نہ ہوتی تو ہم اور ہمارے بڑے اس بت پرستی پر کیوں جمے رہتے اور یہی کہہ کر اللہ کے رسولوں کو جھٹلاتے رہے ہیں اور جس طرح اب ان مشرکوں کو سمجھایا جاتا ہے اسی طرح ان کو بھی طرح طرح سے سمجھایا گیا کہ بت پرستی اللہ کو ناپسند نہ ہوتی تو مثلاً قوم ثمود سے پہلے قوم نوح اور قوم عاد پر عذاب کیوں آتا اور جب وہ سمجھانے سے نہ مانے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کا ان سے بدلہ لے لیا اور طرح طرح کے عذابوں سے ان کو غارت کردیا اگر یہ لوگ سمجھانے سے نہ مانیں گے تو اخیر یہی انجام انکا ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس وعدے کا جو ظہور بدر کی لڑائی کے وقت ہوا۔ صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم کی انس ؓ بن مالک کی روایت سے اس کا ذکرجگہ جگہ گزر چکا ہے آگے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرما کر یوں ان مشرکوں کو قائل کیا کہ یہ مشرک اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتاتے ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا بڑا گنتے ہیں کیا ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ اس بت پرستی کے سبب سے حضرت ابراہیم اپنے باپ اپنی ساری قوم کے دشمن ہوگئے اگر یہ مشرک اپنے بڑوں کی چال پر چلتے ہیں تو اپنے بڑوں کے بڑے حضرت ابراہیم کی چال پر کیوں نہیں چلتے پھر فرمایا بات یہ ہے کہ عمرو بن لحی کے زمانہ سے جو دین ابراہیم و اسمعیل (علیہما السلام) بگڑا اور مکہ میں بت پرستی کی رسم پھیلی اس وقت سے نبی آخر الزمان کے عہد تک اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کو اور ان کی چند پشتوں کو باوجود بت پرستی کے اس حکمت سے ان کے حال پر چھوڑ رکھا تھا کہ نبی آخر الزمان کی ہدایت سے یہ مکہ کے لوگ اپنے قدیم بزرگوں کی طرح ملت ابراہیمی پر قائم ہوجائیں اور چند پشت سے انہوں نے خانہ خدا میں بت پرستی جو پھیلا رکھی ہے وہ دور ہوجائے لیکن ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کے کلام کو جادو اور اللہ کے رسول کو جادوگر بتاتے ہیں عمرو بن لحی جس کا ذکر اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے یہ وہی شخص ہے جس کو صحیح حدیثوں میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسی شخص نے ملت ابراہیمی کو بگاڑا اس نے شام کے ملک سے اور جدہ سے بت لا کر مکہ میں بت پرستی پھیلائی اسی کو دوزخ میں آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ وہ آگ میں جل رہا تھا اور اپنی انتڑیاں آگ میں کھینچے کھینچے پھرتا تھا۔ صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ اور ابوہریرہ ؓ سے روایتیں ہیں ان میں یہ ذکر تفصیل سے ہے کہ عمرو بن لحی کو اللہ کے رسول ﷺ نے دوزخ میں جلتے اپنی انتڑیاں آگ میں کھینچے کھینچے پھرتے ہوئے دیکھا اسی ذکر میں آپ نے یہ بھی فرمایا یہ وہی شخص ہے جس نے ملت ابراہیمی کو بگاڑا اور مکہ میں بت پرستی پھیلائی۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 15 ج 6۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص 566 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة مائدۃ ص 2665۔ )
Top