بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zukhruf : 1
حٰمٓۚۛ
حٰمٓ : حا۔ میم
حٰم۔
1۔ 10۔ حم۔ حروف مقطعات میں سے ہے ان حروف کی تفسیر کا حال سورة بقر میں گزر چکا ہے یہ بھی اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی جاتی ہے اس کو مقسم بہ اور جس بات پر قسم کھائی جاتی ہے اس کو مقسم علیہ کہتے ہیں یہاں مقسم بہ وہ قرآن ہے جو عربی زبان میں سارا کا سارا پہلے لوح محفوظ سے اول آسمان پر اور پھر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا وہاں سے اللہ کے رسول ﷺ پر نازل ہوا تاکہ لوگ اس کے موافق عمل کرکے اپنی عقبیٰ درست کریں۔ نسائی مستدرک 3 ؎ حاکم بیہقی وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی صحیح روایتیں ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر میں ایک دفعہ سارا قرآن شریف لوح محفوظ سے اول آسمان پر اترا اور پھر رفتہ رفتہ تیئس سال تک اللہ کے رسول ﷺ پر نازل ہوتا رہا جس بات پر قسم کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے محمد رسول ﷺ نے اپنی طرف سے نہیں بنایا کیونکہ یہ قرآن ان پڑھ رسول پر اترا ہے اور باتیں اس میں ایسی غیب کی ہیں کہ کوئی پڑھا ہوا شخص بھی بغیر غیبی مدد کے وہ باتیں نہیں بتا سکتا اس واسطے اسی قرآن کی قسم کھا کر یہ بات منکرین قرآن کو جتلائی جاتی ہے کہ یہ قرآن بلاشک اللہ کا کلام ہے لوح محفوظ اونچی اور محفوظ جگہ ہے اور قرآن اسی میں لکھا ہوا ہے اس لئے قرآن کو اونچا اور محکم فرمایا آگے مشرکین مکہ کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ تم لوگوں کے جھٹلانے کے سبب سے قرآن کی آیتوں کا نازل ہونا بند نہیں ہوسکتا کیونکہ علم الٰہی میں جو لوگ راہ راست پر آنے کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ انہیں آیتوں کی نصیحت سے راہ پر آجائیں گے رہے ان آیتوں کو مسخرا پن میں اڑانے والے پہلے ایسے لوگ حال کے لوگوں سے قوت اور ثروت میں بڑھ کر پہلے انبیاء کے زمانہ میں بھی تھے جو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئے جن کے قصے ان لوگوں کو عبرت کے لئے سنائے جا چکے ہیں اگر یہ لوگ ان کے ڈھنک پر رہے تو اخیر یہی انجام ان کا ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم کی انس ؓ بن مالک کی حدیث اس انجام کے ذکر میں کئی جگہ اوپر گزر چکی ہے پھر فرمایا اے رسول اللہ کے اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے یہی جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ صاحب قدرت اور صاحب علم نے پیدا کیا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک اور نشانی بیان فرمائی کہ زمین کو اس نے اونچا نیچا نہیں بنایا تاکہ لوگوں کو چلنے پھرنے میں تکلیف نہ ہو بلکہ اس کو بچھونے کی طرح برابر بنایا اسی طرح زمین کاہلنا بند کرنے کے لئے اس میں پہاڑ جو ٹھونکے تو اس حکمت سے کہ ان پہاڑوں میں گھاٹیاں رکھیں تاکہ لوگوں کو ایک سہر سے دوسرے شہر کو جانے میں کچھ دشواری نہ پیش آئے۔ (3 ؎ فتح القدیر ص 460 ج 5۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص 566 ج 2۔ )
Top