Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔
36۔ 41۔ صحیح 5 ؎ مسلم اور ترمذی میں حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان تعینات ہے فرشتہ ہر وقت نیک کام کی صلاح دیتا رہتا ہے اور شیطان برے کام کی صلاح دیتا رہتا ہے صحیح 1 ؎ بخاری میں حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت آدمی اللہ تعالیٰ کی کچھ یاد اور ذکر الٰہی کرتا ہے تو آدمی کے ساتھ جو شیطان رہتا ہے وہ آدمی کی ہم نشینی سے الگ ہوجاتا ہے اور جب آدمی یاد الٰہی سے غافل ہوجاتا ہے تو وہ شیطان پھر آ کر آدمی کی ہم نشینی کو مستعد ہوجاتا ہے اور طرح طرح کے وسوسے آدمی کے دل میں ڈالنے شروع کردیتا ہے ان صحیح حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ہر آدمی کے ساتھ جو شیطان ہے وہ سوا یاد الٰہی کے وقت میں آدمی کی ہم نشینی سے جدا نہیں رہتا اب ان صحیح حدیثوں کے موافق آیت کی تفسیر یہ ہوئی کہ جو لوگ یاد الٰہی سے غافل ہیں ان کے ساتھ کا شیطان کبھی ان کی ہم نشینی سے الگ نہیں ہوتا اور ہمیشہ ایسے لوگوں کے دل میں برے کاموں کے وسوسے ڈالتا رہتا ہے اور نیک کاموں سے روکتا رہتا ہے اسی واسطے باوجود اللہ کے رسول کی ہر وقت کی نصیحت اور ہر روز اللہ کا کلام نازل ہونے کے یہ مکہ کے مشرک لوگ نیک راستہ پر نہیں آتے کیونکہ یاد الٰہی اور نصیحت الٰہی سے دور رہنے کے سبب سیان کے شیاطین ان پر ایسے غالب ہوگئے ہیں کہ ایک دم ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور نصیحت الٰہی سننے کی ان کو مہلت نہیں دیتے حاصل کلام یہ ہے کہ جو لوگ کبھی یاد الٰہی اور کبھی دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ان کو فرشتے اور شیاطین دونوں کی ہم نشینی کا موقع حاصل رہتا ہے اور جو جو لوگ ہمیشہ یاد الٰہی سے غافل اور بیخبر رہتے ہیں شیاطنی کسی وقت انکا پیچھا نہیں چھوڑتے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی طرف سے شیطان ان کا ہم نشین قرار دیا جاتا ہے کس لئے کہ فرشتہ کی ہم نشینی کا کوئی موقع ہی ایسے لوگوں کے لئے باقی نہیں رہتا تفسیر عبد الرزاق میں جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے بد لوگ جب قبروں سے اٹھیں گے اس وقت بھی ان کے شیاطین ان کے ساتھ ہوں گے پھر جب دونوں دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو ایک دوسرے سی بیزاری ظاہر کریں گے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے پھر فرمایا شیاطین کے غلبہ کے سبب سے یہ لوگ بہرے اور اندھے ہو رہے ہیں نہ کچھ سنتے ہیں نہ کچھ دیکھتے ہیں پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تمہاری موجودگی میں جو لوگ ان میں سے راہ راست پر نہ آئے تو بہت جلد اس غفلت کا بدلہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے لے گا ذرا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے چناچہ مثلاً مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھی اللہ کے رسول ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں مارے گئے اسی طرح اہل دمشق بصرہ وغیرہ حضرت عمر ؓ کی خلافت میں اسلام کے تابع ہوگئے جن کی تفصیل کیفیت تاریخ کی کتابوں میں ہے۔ صحیح 1 ؎ بخاری کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ قوم نوح میں کے کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرنے کا غم قوم کے لوگوں کے دل میں بہت تھا شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی شکل کے بت بنا کر رکھ لئے جائیں تاکہ ان بتوں کی نگاہ کے سامنے رہنے سے ان نیک لوگوں کی جدائی کا رنج کچھ کم ہوجائے۔ قوم کے لوگوں نے اس وسوسہ کے موافق عمل کیا اور پھر چند پشت کے بعد شیطان نے ان بتوں کی پوجا دنیا میں پھیلا دی۔ ویحسبون انھم مھتدون کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان برے کام کا وسوسہ اس ڈھنگ سے لوگوں کے دل میں ڈالتا ہے کہ اس کام کی برائی لوگوں کو نظر نہیں آتی عربی کے محاورہ میں ایک چیز کو دوسری چیز کا تابع ٹھہرا کر بولتے ہیں مثلاً والد اور والدہ کو ملا کر والدین کہتے ہیں بعد المشرقین اس محاورہ کے موافق مشرق اور مغرب کو کہا گیا ہے بہکنے والے اور بہکانے والے دونوں ایک جگہ دوزخ میں رہیں گے اس لئے فرمایا کہ آج کے دن کی بیزاری اور بعدا لمشرقین کی تمنا سے کچھ فائدہ نہیں۔ (5 ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب ذکر اللہ والتقرب الیہ الفصل الثالث ص 195۔ ) (1 ؎ تفسیر الدر المنثورص 17 ج 6 و تفسیر ابن کثیر ص 128 ج 4۔ )
Top