Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zukhruf : 42
اَوْ نُرِیَنَّكَ الَّذِیْ وَعَدْنٰهُمْ فَاِنَّا عَلَیْهِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ
اَوْ نُرِيَنَّكَ : یا ہم دکھائیں آپ کو الَّذِيْ : وہ چیز وَعَدْنٰهُمْ : وعدہ کیا ہم نے ان سے فَاِنَّا : تو بیشک ہم عَلَيْهِمْ : ان پر مُقْتَدِرُوْنَ : قدرت رکھنے والے
یا (تمہاری زندگی ہی میں) تمہیں وہ (عذاب) دکھا دیں گے جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ہم ان پر قابو رکھتے ہیں
42۔ 45۔ اللہ پاک نے اس سے پہلے کی آیت میں پیغمبر ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ یا تمہاری وفات کے بعد ضرور ہم کافروں پر عذاب نازل کریں گے اور بدلہ لیں گے اور یا تمہاری حیات میں وہ عذاب جس کا ہم نے وعدہ کیا ہے دکھا دیں گے دونوں باتوں پر ہم قدرت رکھتے ہیں اوپر کی آیت کے وعدہ کا جو کچھ ظہور صحابہ کے زمانہ میں ہوا اس کا مختصر ذکر تو اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ بدر کی فتح سے لے کر اللہ کے رسول کی حیات تک جو فتوحات ہوئیں وہ قصے اس دوسرے وعدہ کے ظہور کی گویا تفسیر ہیں اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کے تم کسی کے جھٹلانے کی کچھ پرواہ نہ کرو اور قرآن کی نصیحت پر مضبوطی سے قائم رہو اب تو یہ قریش قرآن کو جھٹلاتے ہیں پھر اسی قوم میں ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن کی پیروی کے سبب سے بڑی عزت حاصل کریں گے اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت سے لے کر عباسیہ خلافت کے عروج کے زمانہ تک اس وعدہ کا ظہورا ہوا تاریخ الخلفا کے دیکھنے سے اس کا حال معلوم ہوسکتا ہے پھر جس قدر قرآن کی پیروی قوم سے اٹھتی گئی اسی قدر عزت بھی گھٹتی گئی اسی واسطے فرمایا جن لوگوں نے قرآن کی پیروی میں خلل ڈالا ان سے قیامت کے دن اس کی پوچھ ہوگی قریش کو یہ عزت اسی سبب سے حاصل ہوئی کہ اللہ کے رسول اسی قوم میں سے ہوئے جس سے قرآن شریف قریش کی زبان میں نازل ہوا مشرکین مکہ کہتے تھے کہ کسی پچھلے دین میں خالص ایک اللہ کی عبادت ہم نے تو نہیں سنی چناچہ سورة ص میں اس کا ذکر گزرچکا ہے ان لوگوں کے قائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ ان لوگوں نے خالص ایک اللہ کی عبادت کسی پچھلے دین میں ان مشرکوں کی بت پرستی کا بھی کہیں کچھ پتہ ہے آگے اسی ذکر کو سچا کرنے کے لئے فرعون کے قصہ کا حوالہ دیا تاکہ قریش کو معلوم ہوجائے کہ پچھلے زمانہ میں خالص ایک اللہ کی عبادت کے انکار سے فرعون اور اس کی قوم کا کیا انجام ہوا مطلب یہ ہے اگر یہ لوگ بھی اسی انکار پر اڑے رہے تو یہی انجام ان کا ہوگا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس انکار پر بڑے بڑے اڑے رہنے والوں کا جو انجام بدر کی لڑائی کے وقت ہوا۔ صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم کی انس ؓ بن مالک کی حدیث کے حوالہ سے اس کا تذکرہ کئی جگہ گزر چکا ہے۔ (1 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 169۔ )
Top