Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zukhruf : 62
وَ لَا یَصُدَّنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ١ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ : اور نہ روکے تم کو الشَّيْطٰنُ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارے لیے عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ : دشمن ہے کھلا
اور (کہیں) شیطان تم کو (اس سے) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے
62۔ 67۔ اوپر عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمین پر آنے کو قیامت کی نشانی فرما کر یہ فرمایا تھا کہ قیامت ایک دن ضرور آنے والی ہے ان آیتوں میں فرمایا آدم (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ تو تمام بنی آدم کو معلوم ہوچکا ہے کہ شیطان بنی آدم کا قدیمی کھلا کھلا دشمن ہے وہ اللہ تعالیٰ کے رو برو قسم کھاچکا ہے کہ جہاں تک اس سے ہو سکے گا وہ ہر طرح بنی آدم کو نیک راستہ سے روکے گا۔ مسند امام 2 ؎ احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابو سعید ؓ خدری کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے روبرو شیطان بنی آدم کو ہر طرح سے بہکانے اور نیک راستہ سے روکنے کی قسم کھاچکا ہے۔ یہ حدیث گویا اس بات کی تفسیر ہے کہ شیطان بنی آدم کا ایسا کھلا دشمن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے روبرو قسم کھا کر وہ اس دشمنی کا اقرار کرچکا ہے اب بنی آدم میں سے جو شخص اپنے ایسے بڑے دشمن کو دشمن نہ سمجھے اور اس دشمن کے کہنے میں آجائے وہ بڑا نادان ہے اسی واسطے فرمایا ہر شخص کو خوب ہوشیار رہنا چاہئے کہ شیطان اسکو نیک راستہ سے نہ روکے۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں یونانی حکیموں کا بڑا زور تھا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مردہ کے زندہ کرنے کا اور مادر زاد اندھے کے اور کوڑھی کے اچھے کرنے کا معجزہ دیا جس سے اس وقت کے یونانی حکیم حیران ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان ہی معجزات کو نشانیاں فرمایا۔ تفسیر سدی میں جو سلف کے قول ہیں ان کے موافق یہاں حکمت کے معنی نبوت 3 ؎ کے ہیں۔ تورات کے بعض احکام میں یہود نے جو اختلاف ڈال رکھا تھا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس اختلاف کو رفع کردیا تھا مثلاً ہفتہ کے دن کی تعظیم میں جو یہود کا اختلاف تھا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو رفع کرکے دن کی بہت سی تعظیم باتوں کو کم کردیا۔ چناچہ انجیل یوحنا کے پانچویں باب میں لکھا ہے کہ اس اختلاف کے رفع کردینے پر یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن ہوگئے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہود کے بہت سے اختلاف جو رفع کئے ان آیتوں میں اس کا ذکر ہے اب آگے عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی جو نصتحن کی ہے اس کا ذکر ہے اور یہ ذکر ہے کہ بنی اسرائیل میں سے یہود تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور انجیل کے بالکل منکر ہوگئے اور نصاریٰ نے ایک دا کے کئی خدا ٹھہرا دیئے اور ایک انجیل کی کئی انجیلیں بنا دیں پھر فرمایا ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کا انتظار کرنا چاہئے کہ اس دن یہ لوگ اپنے اعمال کا خمیازہ بھگت لیں گے قیامت کے انتظار کا یہ مطلب ہے کہ قیامت سے پہلے جو لوگ مرجائیں گے ان کی قیامت تو مرنے کے ساتھ ہی گویا قائم ہوجائے گی کیونکہ مرنے کے ساتھ ہی جنت کے قابل شخص کو جنت کا اور دوزخ کے قابل شخص کو دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر فرشتے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانہ میں رہنے کے لئے تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ چناچہ مسند 1 ؎ امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی صحیح حدیث اس مضمون کی اوپر گزر چکی ہے۔ علاوہ ان کے آخری زمانہ میں وہ لوگ ہوں گے جو صور کی آواز سن کر مرجائیں گے جن کا ذکر صحیح 2 ؎ مسلم کی عبد اللہ بن عمر کی روایت سے ایک جگہ گزر چکا ہے غرض موت کا وقت یا صور کا وقت کسی کو معلوم نہیں اس واسطے فرمایا کہ قیامت نے خبری میں اچانک آجائے گی اب آگے قیامت کے دن کی نفسانفسی کا ذکر فرما کر کہ اس دن خدا سے ڈرنے والی قوم کے سوا اور سب قوموں کی آقس کی دوستی دشمنی سے بدل جائے گی اب دنیا میں تو بہکنے والے اور بہکانے والے آپس میں دوست بنے ہوئے ہیں قیامت کے دن جس طرح یہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ اس کا ذکر سورة ابراہیم سورة صبا اور سورة حم السجدہ میں گزر چکا ہے صحیح بخاری 3 ؎ و مسلم میں ابو سعید ؓ خدری کی ایک بہت بڑی حدیث شفاعت کے باب میں ہے جس میں اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز روزہ کے ساتھی مسلمان دوست اپنے گناہ گار دوستوں کو بڑی گہری شفاعت کے بعد عذاب دوزخ سے نجات دلوائیں گے جن سورتوں کی آیتوں کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے ان آیتوں اور ابو سعید ؓ خدری کی اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ قیامت کے دن خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے سوا اور سب لوگوں کی دوستی دشمنی سے بدل جائے گی۔ (2 ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب الاستغفار والتوبۃ الفصل الثانی ص 204۔ ) (1 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا صفحہ گزشتہ ) (2 ؎ صحیح مسلم باب ذکر الدجال ص 403 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح باب اثبات رویۃ المومنین بھم الخ ص 103 ج 1۔ )
Top