بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
جس بیعت کا ذکر ان آیتوں میں ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان ہے اور صلح حدیبیہ کو فتح اس لئے کہتے ہیں کہ یہی صلح آخر کو فتح مکہ کا سبب قرار پائی ہے معتبر سند سے مسند بزار طبرانی مصنف ابن ابی شبیہ تفسیر عبد الرزاق وغیرہ 1 ؎ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے وقت قبیلہ خزاعہ آنحضرت ﷺ کے امن میں تھا اور قبیلہ بنی بکر قریش کے امن میں تھا اور صلح حدیبیہ اگرچہ دس برس تک کی مدت کے لئے ہوئی تھی لیکن اس صلح کے دو برس کے بعد ان دونوں قبیلوں میں لڑائی ہوئی اور قریش نے صلح حدیبیہ کی شرط کے خلاف قبیلہ بنی بکر کو درپردہ ہر طرح کی مدد دی جب آنحضرت ﷺ کو یہ حال معلوم ہوا کہ قریش شرائط صلح حدیبیہ پر قائم نہیں رہے تو آپ نے دس ہزار صحابہ کی جمعیت سے مکہ پر چڑھائی کی اور مکہ فتح ہوگیا حاصل کلام یہ ہے کہ یہ سورة اگرچہ صلح حدیبیہ سے واپس ہوتے ہوئے نازل ہوئی ہے لیکن فتح مکہ سے دو برس پہلے اس سورة میں فتح مکہ کی خوش خبری ہے۔ اس واسطے صحیح بخاری 2 ؎ و صحیح مسلم میں عبد اللہ بن مغفل وغیرہ سے جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے دن بڑی خوش آوازی سے اونٹنی پر سوار ہو کر آنحضرت ﷺ نے اس سورة کو پڑھا اور اس سورة کے نازل ہونے کے وقت صلح حدیبیہ کے باب میں جب حضرت عمر (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ کیا حضرت یہ صلح فتح ہے تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا کہ ہاں ‘ اس صلح کے وقت ابوجندل صحابی کا قصہ ایسا پیش آیا کہ جس وقت یہ قصہ پیش آیا تھا اس وقت بھی مسلمانوں کے دل ہل گئے تھے اور اب بھی اس قصہ کے ذکر سے ہر مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں پوری تفصیل اس قصہ کی تو حدیث کی کتابوں میں ہے مگر صاحل اس قصہ کا یہ ہے 1 ؎ کہ ابو جندل کے اسلام لانے اور ہجرت کا ارادہ کرنے کے سبب سے ابوجندل کے باپ سہل بن عمرو نے ابو جندل کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر ابو جندل کو قید کر رکھا تھا قریش کی طرف سے جب سہل بن عمرو ابو جندل کے باپ صلح نامہ لکھوانے کے لئے آنحضرت ﷺ کے پاس حدیبیہ میں آئے تو ابو جندل نے بیڑیوں کی حالت میں ہی کسی طرح سے اپنے آپ کو مسلمانوں کے لشکر میں پہنچا کر مسلمانوں سے فریاد کی کہ مشرکوں کی ایذا سے ان کو چھوڑایا جائے لیکن صلح نامہ میں یہ شرط تھی کہ قریش میں کا جو شخص مسلمانوں میں آئے گا وہ واپس کیا جائے گا اس شرط کے موافق اسی حال میں آنحضرت نے ابو جندل کو ان کے باپ سہل کے حوالہ کیا اور اس وقت صحابہ پر جو حالت گزری وہ بیان سے باہر ہے اسی صلح کے سفر میں حدیبیہ کے سوکھے ہوئے کنویں کا پانی بڑھ جانے کا معجزہ ظہور میں آیا ہے 2 ؎ اور اس بیعت الرضوان کا سبب یہی تھا کہ آنحضرت نے حضرت عثمان کو قریش نے شہید کر ڈالا اس خبر سے آنحضرت نے صحابہ سے قریش کی لڑائی پر بیعت لی اور حضرت عثمان ؓ کی طرف سے خود اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا یہ عثمان ؓ کی بیعت 3 ؎ ہے جو سورتیں ہجرت کے وقت نازل ہوئی ہیں وہ مدنی کہلاتی ہیں اس واسطے حضرت عبد اللہ بن 4 ؎ عباس سے اس سورة کے مدنی ہونے کی روایت بیہقی وغیرہ میں ہے۔ ورنہ صحیح 5 ؎ مسلم کی انس ؓ بن مالک کی روایت کے موافق یہ سورة حدیبیہ کے واپس ہونے کے وقت راستہ میں نازل ہوئی ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے اس حدیبیہ کے معاملہ کی ظاہر صورت اگرچہ صلح کی ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک بہت بڑی فتح ہے جس کا نتیجہ تم کو اور تمہارے ساتھ کے مسلمانوں کو آئندہ معلوم ہوجائے گا ‘ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے اس صلح کے وقت مسلمانوں کی فوج 6 ؎ چودہ ہزار کے قریب ہوگئی۔ جس کے مقابلہ سے اہل مکہ عاجز آگئے اور آسانی سے مکہ فتح ہوگیا جس طرح یہ صلح فتح مکہ کی نشانی تھی اسی طرح فتح مکہ اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کی نشانی تھے چناچہ اذا جاء نصر اللہ والفتح میں اس کا ذکر آئے گا اس لئے اس صلح کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو یہ خوش خبری سنا دی کہ فتح مکہ کے بعد بطور شکر یہ کے کثرت سے استغفار کرنے کا جو حکم تم کو ہونے والا ہے اس کے موافق عمل کرنے سے اے رسول اللہ کے تمہارے آخری حصہ عمر کے سب گناہ اور اس سے پہلے کے سب گناہ معاف کر دے گا تاکہ تم سے جو کچھ بھول چوک ہوئی ہے اس کو یاد کرکے قیامت کے دن شفاعت کبریٰ کو اپنے ذمہ لینے میں اور انبیا کی طرح تمہیں کچھ پس و پیش نہ ہو۔ صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ میدان محشر میں گرمی اور پسینہ کی تکلیف سے جب لوگ گھبرائیں گے تو آدم (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک سب انبیاء سے یہ التجا کریں گے کہ وہ لوگوں کا حساب و کتاب جلدی شروع ہوجانے کی سفارش بارگاہ الٰہی میں کریں لیکن سب انبیاء اپنی اپنی بھول چوک کو یاد کرکے اس سفارش کی جرأت نہ کریں گے ‘ آخر یہ سب اہل محشر خاتم النبیین ﷺ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اور انبیاء تو اپنی اپنی بھول چوک یاد کرکے اس کی ندامت سے اللہ تعالیٰ کے رو برو جانے اور ہماری سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرتے آپ کے اگلی پچھلی سب بھول چوک اللہ تعالیٰ نے معاف کردی ہے آپ ہی ہماری سفارش کریئے یہ سن کر آپ سفارش کریں گے اور آپ کی سفارش مقبول ہو کر حساب و کتاب شروع ہوجائے گا ‘ یہ سفارش تمام اہل محشر کے حق میں ہوگی اور گناہ گاروں کو دوزخ سے نکالنے کی سفارش فقط امت محمدیہ ؓ کے گناہ گاروں کے حق میں ہوگی اس واسطے اس سفارش کو سفارش کبریٰ کہتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں اللہ کے رسول ﷺ کے اگلے پچھلے گناہوں کے معاف کردینے کا جو احسان اللہ تعالیٰ نے جتلایا ہے اس کے سبب سے تمام اہل محشر میں جو عزت اللہ کے رسول ﷺ کو حاصل ہوگی اس کا حال اس حدیث سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری 2 ؎ و مسلم کے حوالہ سے مغیرہ ؓ بن شعبہ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ تہجد کی نماز میں یہاں تک کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم ہوجاتا تھا۔ صحیح 3 ؎ بخاری وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ہر روز ستر دفعہ سے زیادہ توبہ استفغار کیا کرتے تھے ‘ کثرت عبادت اور کثرت استغفار کے حکم کی تعمیل جس کوشش سے اللہ کے رسول ﷺ فرماتے تھے اس کا حال ان حدیثوں سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے آگے فرمایا کہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ اور خیبر وغیرہ کا سامان اللہ تعالیٰ نے اپنی زبردست مدد سے اس لئے کردیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے احسان کو پورا کر دے اور ان فتوحات کے سبب سے مخالف لوگوں کی شرارت کم ہو کر اللہ کے دین پر تمہاری اور مسلمان کی ثابت قدمی بڑھ جائے پھر فرمایا اس صلح کی بعض شرطوں کو اگرچہ مسلمان مضر جان کر انہیں نہیں ماننا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا تحمل پیدا کردیا جس سے ان شرطوں کو انہوں نے مان لیا اور جب اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق ان شرطوں کی فائدے ان کو نظرآئے تو اللہ کی قدرت پر ان کا ایمان بڑھ گیا ‘ پھر فرمایا اللہ کے حکم میں تو آسمان اور زمین میں کے ایسے لشکر ہیں کہ پچھلی امتوں کی طرح ان مخالف اسلام لوگوں کو جس طرح چاہے ہلاک کر دے لیکن علم الٰہی میں یہ بات ٹھہر چکی ہے کہ فرمانبردار لوگوں کو دین کی لڑائی کے سبب سے بڑا اجر ملنے والا ہے اس لئے اس نے اپنی حکمت کے موافق صلح کی جگہ اور لڑائی کی جگہ سب باتیں مقرر کردی ہیں جن کی ہدایت اللہ کے رسول کی معرفت فرمانبردار لوگوں کو پہنچتی ہے اور اس ہدایت پر چلنا عین فرمانبرداری ہے اور فرمانبردار مرد اور عورتوں کا بدلہ ان کے گناہوں کو معاف کرکے جنت میں داخل کردینا ہے جو نیک لوگوں کے دنیا میں پیدا ہونے کا بڑا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان لوگوں کے لئے یہی بڑی کامیابی ہے ‘ پھر فرمایا جس طرح فرمانبرداری نیک لوگوں کے جنت میں جانے کا سبب ہے اس طرح کفر اور نفاق اللہ کے غضہ اور اس کی رحمت سے دور ہونے اور دوزخ میں جانے کا سبب ہے جو بہت بڑا ٹھکانہ ہے اور یہ لوگ تو اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے حق میں برائی سوچتے تھے کہ یہ حدیبیہ کے سفر سے صحیح و سلامت الٹے نہ پھریں گے لیکن اس برائی نے ان ہی لوگوں کو دنیا اور عقبیٰ کے چکر میں ڈال دیا دنیا میں تو یہ لوگ مسلمانوں کی ترقی دیکھ کر جلتے رہیں گے اور عقبیٰ میں ان کا انجام وہی ہوگا جو بیان کیا گیا پھر اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بردار بندوں سے بدلہ لینے میں بڑا زبردست ہے اور اس کے لشکر بھی طرح طرح کے ہیں وہ چاہتا تو ان کافروں اور منافقوں سے اب تک بدلہ لے لیتا لیکن اس نے اپنی حکمت سے ہر کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے وقت مقررہ پر یہ لوگ اپنی سزا کو پہنچ جائیں گے قیامت کے دن تمام رسولوں سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے جو اپنی امتوں کو اللہ کے احکام پہنچائے تو کتنے آدمیوں نے ان احکام کو مانا اور کتنے آدمیوں نے نہیں مانا چناچہ اس کا ذکر سورة اعراف میں گزر چکا ہے اسی کو فرمایا انا ارسلنک شاھدا مبشرا کے معنی فرمانبردار لوگوں کو جنت کی خوشخبری سنانے والا نذیرا کے معنی نافرمان لوگوں کو دوزخ کے عذاب سے ڈرانے والا پھر فرمایا یہ خوش خبری اور ڈرانا اس لئے ہے کہ لوگ اللہ اور رسول کی باتوں کو دلی یقین سے مانیں اور رسول کی مدد اور توقیر میں اور اللہ کی عبادت میں لے رہیں جس بعیت رضوان کا اوپر ذکر تھا آگے اس بعیت کا ذکر فرمایا اور اللہ کے رسول جو کام کرتے تھے وہ اللہ کے حکم کے موافق ہوتا تھا اس واسطے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول سے بیعت کر رہے ہیں ان کی بیعت گویا اللہ سے ہے پھر فرمایا جو کوئی اس بیعت کے معاہدہ کو توڑے گا اس کا وبال اسی پر پڑے گا اور جو کوئی اس عہد کو پورا کرے گا تو اس کو اللہ تعالیٰ بڑا اجر دے گا ‘ جن مفسروں نے اپنی تفسیروں کی بنیاد سلف کے اقوال پر رکھی ہے ید اللہ کی تفسیر اللہ کے علم پر سونپتے ہیں اور بلامشابہت مخلوقات کے اس طرح کی آیتوں کے ظاہری معنوں پر ایمان لاتے ہیں۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 76 ج 6۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب ابن رکز النبی ﷺ الرایۃ یوم الفتح ص 614 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم باب صلح الحدیبیۃ ص 106 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب الشروط فی الجھاد ص 377 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب غزوۃ الحدیبیۃ ص 598 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری باب مناقب عثمان ؓ ص 523 ج 1۔ ) (4 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 67 ج 6۔ ) (5 ؎ صحیح مسلم باب صلح الحدیبیۃ ص 106 ج 2۔ ) (6 ؎ صحیح بخاری باب غزوۃ الحدیبیۃ ص 598 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة بنی اسرائیل ص 684 ج 2 و صحیح مسلم باب اثبات الشفاعۃ ص 111 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة انا فتحنالک الایۃ ص 716 ج 2 و مسلم باب اکثار الاعمال الخ ص 377 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری باب استغفار النبی ﷺ فی الیوم واللیلۃ ص 933 ج 2۔ )
Top