Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ تم ان کو حاصل کرو گے تو اس نے غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے (خدا کی) قدرت کا نمونہ ہے اور وہ تم کو سیدھے راستے پر چلائے
20۔ 26۔ اوپر ذکر تھا کہ جن لوگوں نے بیعت رضوان خالص دل سے کی ہے اللہ ان سے خوش ہے اور اس نیک نیتی کے کام پر اللہ تعالیٰ نے ان کو خیبر کی فتح انعام کے طور پر عنایت کی اور یہ حکم دیا کہ اس فتح کی غنیمت کے مال میں سوائے ان بیعت والے لوگوں کے اور کسی دوسرے کا حصہ نہیں ان آیتوں میں فرمایا جن فتوحات اور غنیمت کے بہت سے مال کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اس وعدہ میں سے فتح خیبر اور وہاں کے غنیمت کا مال ایک فوری انعام ہے اس کے بعد رفتہ رفتہ اور فتوحات کی امید اللہ تعالیٰ سے رکھنی چاہئے اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس کے بعد اللہ کے رسول اور خلفا کے زمانہ میں بہت سی فتوحات ہوئیں جن کا ذکر حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے ہے جس وقت مسلمانوں کا لشکر خیبر کی چڑھائی پر تھا اس وقت میں اسد اور غطفان قبیلہ کے لوگوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے اہل و عیال پر حملہ کرکے ان کا مال لوٹ لیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب پیدا کردیا جس سے ان کے دلوں میں اس ارادہ کے پورا کرنے کی جرأت باقی نہیں رہی۔ اس کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی دست درازی روک دی تاکہ مسلمانوں کو یہ نمونہ ہوجائے کہ دین کی لڑائی پر جو لوگ جاتے ہیں ان کے اہل و عیال کا اللہ نگہبان ہے اسی نمونہ کے دیکھ لینے کے بعد وہ دین کی باتوں پر ثابت قدم ہوجائیں مسلمان جب عمرہ کی نیت سے مکہ گئے اور مشرکین مکہ نے ان کو روکا اور ان کا روکنا چل بھی گیا اس سے مسلمانوں کی نظر میں فتح مکہ ایک دشوار چیز معلوم ہوتی تھی اس واسطے عام فتوحات کے ذکر کے بعد خاص فتح مکہ کا یوں ذکر فرمایا کہ جو فتح تم لوگوں کے بس کی نہیں ہے وہ اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے پھر فرمایا مسلمانوں کے اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک صلح مناسب تھی اگر یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نہ ٹھہری ہوتی کہ اس سفر میں لڑائی نہ ہوگی اور یہ مشرک لڑائی کا قصد کرتے تو ضرور ایسے بھاگتے کہ ان کا مددگار اور حمایتی کوئی پیدا نہ ہوتا کیونکہ نیکیوں کی جزا اور بدیوں کی سزا ایک دستور الٰہی ہے جو پلٹ نہیں سکتا۔ صحیح مسلم 1 ؎ میں انس بن مالک سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب مسلمان لوگ بیعت میں مصروف تھے تو مشرکین مکہ کے میں اسی آدمی مسلمانوں کے لشکر میں گھس آئے اگرچہ ان کا ارادہ حملہ کرنے کا تھا مگر مسلمانوں نے زندہ گرفتار کرلیا اور اللہ کے رسول ﷺ نے ان کا قصور معاف کرکے ان کو چھوڑ دیا آخری آیت میں اسی قصہ کا ذکر فرمایا۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق فتوحات تو ضرور ظہور آئیں گی مگر یاد رکھنا چاہئے کہ نیک و بد سب کے عمل اللہ کی نگاہ میں ہیں فوحات کے خوشحالی کے بعد ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جس سے ناشکری پائی جائے ورنہ پھر یہ فتح مندی باقی نہ رہے گی۔ صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے عمرو ؓ بن عوف انصاری کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کی تنگ دستی کے زمانہ کا کچھ خوف نہیں ہے خوف تو اسی زمانہ کا ہے جب پچھلی امتوں کی طرح ان پر دنیا کی بہبودی زیادہ ہوجائے گی جس سے پہلے لوگوں کی طرح ان میں ناشکری کی باتیں پھیل جائیں گی جو ان کی ہلاکت کی نشانی ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق فتوحات اور غنیمت کے مال سے امت محمدیہ ﷺ کو مالا مال کردیا لیکن اس خوشحالی کے زمانہ میں امت کے لوگوں میں وہی ناشکری کی باتیں پھیل گئیں جن کا اللہ کے رسول ﷺ کو اندیشہ تھا شروع اس اندیشہ کا حضرت عثمان ؓ کی خلافت سے ہوا ایک ذرا سی بات میں لوگوں نے خلیفہ عثمان ؓ کو شہید کر ڈالا حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے قصہ کا حال 2 ؎ یہ ہے کہ عثمان نے عبداللہ ؓ بن ابی سرح اپنے دودھ کے بھائی کو مصر کا حاکم کردیا تھا عبد اللہ نے مصر کے لوگوں پر جب ظلم کرنا شروع کیا اور مصر کے لوگ عثمان ؓ کے پاس عبد اللہ ؓ کے ظلم کی فریاد کو آئے تو حضرت علی ؓ کے مشورہ سے حضرت عثمان ؓ نے عبد اللہ کو معزول کرکے اس کی جگہ محمد بن عبد الرحمن حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے کو مامور کردیا۔ یہ لوگ محمد بن عبد الرحمن کی ماموری کا حکم لے کر جب مصر کو جا رہے تھے اور محمد بن عبد بن عبد الرحمن ان لوگوں کے ساتھ تھے تو انہوں نے حضرت عثمان ؓ کے غلام کو حضرت عثمان ؓ کے اونٹ پر سوار مصر کی طرف گھبرایا ہوا جاتے دیکھا اس غلام کو گھبرایا ہوا دیکھ کر ان لوگوں نے اس سے پوچھا تو کس کام کو مصر جا رہا ہے تو اس نے کہا خلیفہ نے مجھ کو مصر کے حاکم کے پاس بھیجا ہے ان لوگوں نے پوچھا تریے پاس خلیفہ کا کوئی خط ہے تو اس نے انکار کیا اس پر ان لوگوں نے اس کی تلاشی لی تو حضرت عثمان ؓ کا مہری خط عبد اللہ ؓ بن ابی سرح کے نام نکلا جس کا مضمون یہ تھا کہ محمد بن عبد الرحمن اور ان کے ساتھیوں کو کسی حلیہ سے قتل کردیا جائے اور تاحکم ثانی عبد اللہ مصر کا حاکم رہے۔ اس خط کو دیکھ کر یہ لوگ مصر میں نہیں گئے بلکہ مدینہ کو واپس آئے اور اس خط کا حال حضرت عثمان ؓ سے جب بیان کیا گیا تو انہوں نے قسم کھا کر اس خط کے لکھنے سے انکار کیا پھر زیادہ دریافت سے معلوم ہوا کہ یہ حضرت عثمان کے چچا زاد بھائی مروان بن حکم نے لکھا تھا اور حضرت عثمان ؓ کی مہر کسی طرح اس خط پر کرکے حضرت عثمان کے غلام کو ان کے اونٹ پر بٹھا کر اس غلام کے ہاتھ یہ خط عبد اللہ بن سرح کے پاس مصر بھیجا تھا اس دریافت کے بعد مروان کے مخالف لوگ حضرت عثمان سے مروان کو مانگتے تھے اور حضرت عثمان ؓ مروان کو ان لوگوں کے حوالہ میں دینے سے تامل کر رہے تھے کہ اتنے میں نامعلوم دو شخص حضرت عثمان ؓ کے پڑوس کی دیوار پر سے حضرت عثمان ؓ کے گھر میں کو دے اور حضرت عثمان ؓ کو شہید کر ڈالا۔ یہ دونوں شخص غیر راستہ سے اس واسطے گئے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے گھر کے دروازہ پر امام حسن ؓ اور امام حسین ؓ کو کھڑا کردیا تھا اور تاکید کردی تھی کہ حضرت عثمان ؓ کے گھر کے اندر کوئی نہ جائے حضرت علی ؓ کے فرمانے سے حضرت امام حسن ؓ اور امام حسین ؓ ہتھیار لگائے وہاں کھڑے تھے یہ عبد اللہ بن ابی سرح وہی شخص ہے جس کے مار ڈالنے کا حکم فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول نے دیا تھا اور حضرت عثمان ؓ کی سفارش سے اس کی جان بخشی ہوئی 1 ؎ تھی۔ یہ ذکر پہلے ایک جگہ تفصیل سے گزر چکا ہے حدیبیہ کے سفر سے پہلے اللہ کے رسول ﷺ نے یہ خواب دیکھا کہ آپ مع صحابہ کے امن سے مکہ گئے ہیں اور عمرہ کی باتیں ادا کر رہے ہیں نبوت سے پہلے بھی اللہ کے رسول کے خواب کی تعبیر جلدی ظاہر ہوجایا کرتی تھی چناچہ صحیح 2 ؎ بخاری کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جس طرح ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے اسی طرح اللہ کے رسول کے ہر ایک خواب کے بعد تعبیر کا حال تھا حاصل کلام یہ ہے کہ اور خوابوں کی جلدی اور یقینی تعبیروں کی طرح اس خواب کی تعبیر کو خیال کیا اور چودہ سو صحابہ کو ساتھ لے کر اللہ کے رسول نے مکہ کا قصد کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں برس دن کے بعد اس خواب کی تعبیر کا ظہور ہونے والا تھا اس لئے مکہ کے اندر اس سال جانا نہیں ہوا مکہ کے قریب حدیبیہ نام کی ایک بستی ہے وہاں مشرکوں نے اہل اسلام کے اس عمرہ کے قافلہ کو روکا اور بڑے جھگڑے کے بعد اگلے سال عمرہ کرنے اور دس برس تک لڑائی کے موقوف رہنے پر صلح ہوئی اس کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ مشرکین مکہ اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کہتے ہیں اتنا نہیں جانتے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اللہ سے یہ دعا کی تھی کہ غیب سے لوگوں کے دلوں میں کعبہ کی زیارت کا شوق پیدا ہوجائے اور یہ نسل ابراہیمی کہلا کر لوگوں کو اس زیارت سے اور قربانی کے جانوروں کو منیٰ کے جانے سے روکتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ کچھ چھپے ہوئے مسلمان مرد و عورت مکہ میں نہ ہوتے اور کچھ نئے لوگوں کا رحمت الٰہی سے داخل اسلام ہونا اللہ کے علم غیب میں نہ ٹھہر چکا ہوتا تو بدر کی لڑائی کی طرح اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی مدد دیتا کہ وہ لڑ کر مکہ تہ وبالا کردیتے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اس وقت صلح ہو کر صلح کے زمانہ میں کمزور چھپے ہوئے مسلمان مدینہ میں امن سے آن بسیں اور جو نئے مسلمان ہونے والے ہیں وہ مسلمان ہوجائیں اس لئے اگرچہ ان مشرکین مکہ نے صلح کے وقت ضد کی باتیں کیں لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل پیدا کردیا جس سے انہوں نے مشرکوں کی ضد کی باتوں کی برداشت کی اور آخر صلح ہوگئی۔ ضد کی باتیں مثلاً صلح نامہ میں بسم اللہ کا اور محمد ﷺ کے نام کے ساتھ لفظ رسول کا نہ لکھنے دینا پھر فرمایا مسلمانوں کی بردباری کی باتیں اور مشرکوں کی ضد کی باتیں اللہ کو سب معلوم ہیں جزا و سزا کے وقت ہر ایک کا فیصلہ ہوجائے گا۔ صحیح بخاری 1 ؎ میں مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے جو روایتیں ہیں ان میں اس صلح حدیبیہ کی تفصیل زیادہ ہے اور وہی روایتیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا زہری 2 ؎ نے کلمۃ التقوی کی تفسیر بسم اللہ الرحمن الرحیم قرار دی حاصل مطلب اس تفسیر کا یہ ہے کہ مسلمانوں نے صلح نامہ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرنا چاہا لیکن مشرکین مکہ ضد سے اس پر رضا منہ نہیں ہوئے۔ (1 ؎ صحیح مسلم باب قول اللہ تعالیٰ وھو الذی کف ایدیہم عنکم الایۃ ص 116 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب مایحذر من زھرۃ الدنیا۔ الخ ص 950 ج 2۔ ) (2 ؎ اس قصہ کے بہت سے اجزا تاریخی حقائق کے خلاف ہیں اور تھوڑے سے تامل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سب باتیں صحابہ کرام کو اور خاص کر حضرت عثمان کو بدنام کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ) (1 ؎ سنن ابو داؤود کتاب الحدود باب الحکم فیمن ارتد ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی الخ ص 2 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب غزوۃ الحدیبیۃ ص 598 و 600 ج 2۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 194 ج 4۔ )
Top