Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hujuraat : 17
یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا١ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْ١ۚ بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
يَمُنُّوْنَ : وہ احسان رکھتے ہیں عَلَيْكَ : آپ پر اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ : کہ وہ اسلام لائے قُلْ : فرمادیں لَّا تَمُنُّوْا : نہ احسان رکھو تم عَلَيَّ : مجھ پر اِسْلَامَكُمْ ۚ : اپنے اسلام لانے کا بَلِ اللّٰهُ : بلکہ اللہ يَمُنُّ : احسان رکھتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْ هَدٰىكُمْ : کہ اس نے ہدایت دی تمہیں لِلْاِيْمَانِ : ایمان کی طرف اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
یہ لوگ تم پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے ہیں کہہ دو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا بشرطیکہ تم سچے (مسلمان) ہو
17۔ 18۔ ایۃ قالت الاعراب امنا۔ کی شان نزول میں قبیلہ بنی اسد کا ذکر جو گزرا یہ لوگ قحط کے زمانہ میں اپنے گاؤں سے گھبرا کر مدینہ آگئے اور اس لالچ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے کہ غنیمت کے مال میں صدقہ خیرات کی چیزوں میں سے مدد ملتی رہے گی جس سے قحط کا زمانہ اچھی طرح کٹ جائے گا۔ اب اسلام لانے کے بعد یہ لوگ اپنے اسلام کا احسان جتلانے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ یہ لوگ اپنے اسلام کا احسان کسی پر نہ رکھیں ان کے اسلام سے اور کسی کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا یہی لوگ اگر سچے دل سے اسلام پر قائم رہیں گے تو ان کا عقبیٰ کا بھلا ہوجائے گا اس لئے ان لوگوں کو اللہ کا احسان ماننا چاہئے کہ اس نے ان کو نیک راستہ سے لگا دیا پھر فرمایا اگر اسی طرح دوسروں پر احسان رکھنے کے لئے یہ لوگ مسلمان رہے تو اسی طرح کا اوپرے دل کا نیک کام بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہے اور دلی ارادہ اور اوپرے دل کے لوگوں کے سب کام اللہ کی نظر میں ہیں اس واسطے یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص اوپر کے دل کے کسی نیک عمل کو دلی ارادہ کا عمل بتا دے۔ طبرانی 1 ؎ کے حوالہ سے انس ؓ بن مالک کی صحیح روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ قیامت کے دن جب سر بمہر اعمال نامے پیش ہوں گے تو بہت سے نیک عملوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں کے اعمال ناموں میں سے نکال ڈالنے کا حکم دے گا فرشتے عرض کریں گے یا اللہ ظاہر تو ان عملوں میں کوئی خرابی نہیں معلوم ہوتی اللہ تعالیٰ فرمائے گا انسان کے دل کا حال تم کو معلوم نہیں مجھ کو خوب معلوم ہے یہ عمل نیک نیتی اور خالص عقبیٰ کے اجر کی غرض سے نہیں کئے گئے اس واسطے نامقبول ہیں۔ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بھی اعمال کا جو حال معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے وہ حال بھی چھپ نہیں سکتا اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس علم غیب کے موافق سزا و جزا کا فیصلہ فرمائے گا۔ (2 ؎ صحیح بخاری باب اذالم یکن الاسلام علی الحقیقتۃ الخ ص 8 ج 1۔ )
Top