Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے۔
(101 ۔ 102) ۔ اگرچہ بخاری ترمذی اور مستدرک حاکم اور مسند امام احمد بن حنبل اور مسند سعید بن منصور اور تفسیر ابن جریر میں جدا جدا شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے 3 ؎ لیکن حافظ ابن حجر (رح) نے اس اختلاف کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ سب قصوں کی حالت مجموعی پر یہ آیت نازل ہوئی ہے 4 ؎ حاصل ان قصوں کا یہ ہے کہ جب حج کی آیت اتری تو بعض صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ کیا ہر سال کے لئے حج فرض ہوا ہے آپ نے فرمایا نہیں اور یہ بھی فرمایا کہ اگر میں تمہارے اس سوال کے جواب ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال کے لئے فرض ہوجاتا اور ہرگز تم میں طاقت نہ تھی کہ ہر سال کے حج کو تم ادا کرسکتے اور باوجود فرض ہوجانے کے تم ہر سال حج ادا نہ کرتے تو تم تارک فرض ہوجاتے اور آپ کو صحابہ کے سا تکلیف شرعی بڑھانیوالے سوال پر غصہ آیا اس لئے آپ نے منبر پر چڑھ کر اس طرح کا نصیحت آمیز خطبہ پڑھا کہ لوگوں کو روتے روتے ہچکی لگ گئی اور آپ نے منبر پر یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر لوگ وہ جانتے ہو تو ہنستے کم اور روتے بہت اور یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ تم کو پوچھنا ہے پوچھوں میں جواب دوں گا مگر بعض صحابہ آپ کی غصہ کی حالت کو سمجھ نہ سکے اور فضول باتیں پوچھنے لگے ایک نے پوچھا میں مر کر کہاں جاؤں گا آپ نے فرمایا دوزخ میں دوسرے نے کہا میری ماں پر لوگ تہمت دہراتے ہیں آخر میرا باپ کون ہے آپ نے فرمایا حذیفہ حضرت عمر ؓ آپ کی غصہ کی حالت جھٹ پہچان گئے اور حضرت عمر ؓ نے کھڑے ہو کر کہا ہم کو اللہ اور اللہ کا کلام اور اللہ کا رسول کافی ہے جس سے حضرت عمر ؓ کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو فضول باتیں پوچھنے کی ضرورت نہیں حضرت عمر ؓ کے اس کلام سے آنحضرت کا غصہ کم ہوا اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آئندہ کے لوگوں کو اس طرح کے فضول سوالوں سے روک دیا اور خود آنحضرت نے آئندہ اس طرح کے فضول سوالوں سے لوگوں کو پہلی امت کی ہلاکت کا حال جتلا کر روک دیا چناچہ بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ پہلی امتیں اپنے انبیاء سے فضول سوال کرنے سے غارت ہوگئیں 1 ؎ مثلاً یہود نے کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا سوال کیا اور بجلی گر کر ہلاک ہوگئے اس لئے تم پوچھا گچھی چھوڑ دو اور جس کام کو میں کرنے کو کہوں وہ کام بقدر کر لایا کرو اور جس سے منع کروں سے سے باز رہو ابوداؤد اور دار قطنی میں جابر ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سفر کی حالت میں ایک زخمی صحابی کو نہانے کی حاجت ہوئی انہوں نے اپنے ساتھ والے صحابہ سے تیمم کا مشورہ لیا ساتھ والوں نے تیمم کا مشورہ نہیں دیا آخر وہ زخمی صحابی نہائے اور پانی سے زخم کو یہاں تک ضرر پہنچا کہ اس صدمہ سے ان زخمی صحابی کا انتقال ہوگیا۔ ان لوگوں کے مدینے پہنچنے کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے یہ قصہ سنا تو آپ ان لوگوں پر بہت خفا ہوئے اور فرمایا انجانی کا علاج یہ ہے کہ آدمی بات پوچھ لیوے تم اگر پوچھتے تو یہی جواب ملتا کہ اس زخمی شخص کو تیمم کرنا پھر غسل کرنا اور زخم پر پٹی باندھ کر اس پر مسیح کرلینا کافی تھا 2 ؎ یہ حدیث چند سند سے آئی ہے جس کے سبب سے ایک سند کو دوسرے سے تقویت حاصل ہو کر روایت معتبر ہوجاتی ہے یہ حدیث گویا آیت کی تفسیر ہے آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ جس طرح بلا ضرورت پوچھ گچھ منع ہے اسی طرح ضرورت کے وقت خاموشی بھی منع ہے۔
Top