Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! خدا نے جو تم پر احسان کیا ہے اس کو یاد کرو جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ روک دیئے اور خدا سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسا رکھنا چاہئے۔
اگرچہ مفسرین نے چند قصہ اس آیت کی شان نزول میں بیان کئے ہیں۔ لیکن غورث بن حارث کا قصہ جس کو عبد الرزاق نے حضرت جابر ؓ کی روایت سے اپنی تفسیر میں اس آیت کا شان نزول قرار دیا ہے اس کی سند معتبر ہے اور بہ نسبت اور قصوں کے اس قصہ کی اصل صحیح روایت سے ثابت ہے 2 ؎۔ حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ بخاری نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ جنگ ذات الرقاع کے جاتے وقت ایک جنگل میں پیڑوں کے سایہ میں ہم سب لوگ ٹھہر گئے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں میں بھی ذرا سوگیا اور لوگوں کی بھی ذرا آنکھ جھپک گئی۔ تو آنحضرت کی تلوار جو ایک پیڑ میں آپ نے لٹکا دی تھی غورث بن حارث نے چپکے سے آن کر اتنے میں اتار لی اور تلوار کو میان سے کھینچ کر آنحضرت کی طرف اس کو تولا اور وار کرنا چاہا اور آنحضرت سے کہا اب تم کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے آپ نے فرمایا اللہ مجھ کو بچا سکتا ہے 3 ؎ روایت ابن اسحاق میں ہے کہ اتنے میں جبرئیل ( علیہ السلام) نے آن کر غورث بن حارث کے سینہ پر ایک تھپکی ماری جس سے تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا پڑی تو پھر آنحضرت ﷺ نے چھٹ وہ تلوار اٹھالی اور غورث بن حاثر سے پوچھا کہ اب تجھ کو کون بچاسکتا ہے اس نے کہا کوئی نہیں آپ نے فرمایا خیر جا اپنا راستہ پکڑ۔ واقدی نے اس قصہ کے بعد ذکر کیا ہے کہ اس حال کو دیکھ کر غورث بن حارث مسلمان ہوگیا اور اس کے سبب سے بہت سے لوگوں کو ہدایت ہوئی 4 ؎۔ اس قصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر یہ احسان فرمایا کہ ان کو ایک مخالف شخص کے حملہ سے بچایا۔ پھر اس خاص احسان میں امت کے لوگوں کو شریک کر کے یہ آیت اس تنبیہ کے لئے نازل فرمائی کہ امت کی ہدایت کے لئے رسول کا آنا ایک بڑا احسان ہے اور اس احسان کی حفاظت یہ اللہ کا امت پر گویا دوسرا احسان ہے اس قصہ میں ضرر کے گمان کے وقت اللہ کے رسول نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اس کا انجام اچھا ہوا اس لئے آخر آیت میں عام مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر وہ بھی ایسے موقعے پر اللہ پر بھروسہ کریں گے تو ان کے بھروسہ کا بھی انجام اچھا ہوگا۔ اس تفسیر میں ایک جملہ گزرچکا ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا عالم اسباب میں آدمی اسباب کو چھوڑ بیٹھے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ آدمی اسباب کو کام میں لاوے اور ان اسباب میں تاثیر کے پیدا ہونے کا بھروسہ اللہ پر رکھے۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے اللہ پر بھروسہ رکھنے والے مسلمان کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جانے کی خوش خبری دی ہے 1 ؎۔ یہ حدیث اللہ پر بھروسہ رکھنے والے کی فضیلت کی گویا تفسیر ہے۔
Top