Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کو يٰقَوْمِ : اے میری قوم اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ : جب جَعَلَ : اس نے پیدا کیے فِيْكُمْ : تم میں اَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) وَجَعَلَكُمْ : اور تمہیں بنایا مُّلُوْكًا : بادشاہ وَّاٰتٰىكُمْ : اور تمہیں دیا مَّا : جو لَمْ يُؤْتِ : نہیں دیا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں میں
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم پر خدا نے جو احسان کئے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر پیدا کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا۔ اور تم کو اتنا کچھ عنایت کیا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہیں دیا۔
(20 ۔ 26) ۔ اوپر گزرچکا ہے کہ مصر سے شام کے ملک کا سفر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی غرض سے کیا تھا کہ قوم عمالقہ کو ملک شام کی بستیوں سے لڑکر نکال دیا جاوے اور بنی اسرائیل کو ان بستیوں میں آباد کردیا جاوے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے یہی ملک انبیاء کے رہنے کی جگہ ہے۔ ان آیتوں میں اسی لڑائی کا ذکر ہے اسی لڑائی کے قصہ کے ذکر میں آنحضرت ﷺ کی گویا یہ تسلی فرمائی گئی ہے کہ اے رسول اللہ نافع بن حرملہ وغیرہ نے تمہاری دل شکنی کی باتیں جو کی ہیں یہ بات کچھ نئی نہیں ہے ان لوگوں کے بڑے اللہ کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑی بڑی دل شکنی کی باتیں کرچکے ہیں۔ حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کی اولاد میں ایک مدت تک نبوت اور بادشاہت رہی ہے۔ لڑائی کی رغبت دلانے کے لئے لڑائی کی خواہش سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر میں بادشاہت کا بھی ذکر کیا تھا کہ بنی اسرائیل سمجھ جائیں کہ یہی لڑائی بنی اسرائیل کی آئندہ کی بادشاہت کی گویا بنیاد ہے۔ اللہ سچا ہے اور اللہ کے رسول سچے ہیں۔ اس لڑائی کے بعد ملک شام میں بنی اسرائیل کی بادشاہت کی جو بنیاد قائم ہوئی اس کی نظیر کے لئے ایک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بادشاہت اور اس بادشاہت کی یادگار کے لئے ایک بیت المقدس کی عمارت کافی ہے۔” دیا تم کو جو نہیں دیا کسی کو جہان میں “ اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً فرعون جیسے دشمن کا ہلاک ہونا اور دریا میں راست کا پیدا ہوجانا غرض اپنے زمانے میں بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی وہ وہ نعمتیں پائیں کہ اس زمانہ کی کسی دوسری قوم کو وہ نعمتیں نصیب نہیں ہوتی۔ جن دو شخصوں کا ذکر اس قصہ میں ہے ایک تو ان میں یوشع بن نون ( علیہ السلام) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بھانجے تھے اور دوسری کا سب بن یوحنا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے داماد تھے۔ بارہ چودھری جو عمالقہ کی حالت دریافت کرنے کو بھیجے گئے تھے ان میں سے یہی دو شخص ایسے تھے جو خدا سے ڈر کر عہد پر قائم رہے عہد پر قائم رہنے کی توفیق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان دونوں شخصوں کو عطاء ہوئی اسی کو اللہ کی نعمت فرمایا ان دونوں شخصوں نے بنی اسرائیل کو یہ مشورہ دیا کہ قوم عمالقہ کی بستی کا دروازہ گھیر لیا جاوے جس سے باہر کی رسد بند ہو کر وہ لوگ ہراساں ہوجاویں گے او پھر اپنے وعدہ کے موافق اللہ تعالیٰ ہم کو فتح دیوے گا۔ لیکن بنی اسرائیل نے ان کا مشورہ نہ مانا اور ان دونوں شخصوں کو پتھروں سے مارنے لگے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی یہ سر کشی دیکھی تو اللہ تعالیٰ کے آخری حکم کے نازل ہونے کی التجا کی۔ آخری حکم یہ ہوا کہ چالیس برس تک بنی اسرائیل اس شام کے جنگل میں قید رہے نہ پلٹ کر مصر جاسکتے تھے نہ ملک شام کی کسی بستی میں قدم رکھ سکتے تھے جتنے لوگوں نے یہ سر کشی کی باتیں کی تھیں وہ اسی قید میں مرگئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق حضرت ہارون ( علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی وفات بھی اسی چالیس برس کے اندر ہوگئی۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد یوشع ( علیہ السلام) بن نون موجودہ بنی اسرائیل کے نبی ہوئے اور ان ہی کے عہد میں شام کا ملک بنی اسرائیل کے ہاتھ آیا۔ چالیس برس کی قید کا حکم سن کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی حالت پر کچھ افسوس ہوا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ارسول اللہ کے ایسی سر کش قوم کی حالت پر کچھ افسوس نہ کرنا چاہیے ان کی سزا یہی تھی جو انہوں نے بھگتی۔ ملک شام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے انبیاء کے رہنے کی جگہ ہے اور اسی سرزمین میں طور پہاڑ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہوا ہے۔ اسی سبب سے اس کو زمین پاک فرمایا۔ یہاں اکثر مفسروں نے عوج بن عنق کا ایک قصہ نقل کیا ہے کہ عمالقہ میں وہ بڑا شہ زور بلند قد تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قتل کیا۔ لیکن اس قصہ کی روایت اطمینان کے قابل نہیں ہے 1 ؎۔
Top