Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا (بھاری) عذاب (تیّار) ہے۔
(33 ۔ 34) ۔ عبد الرزاق نے حضرت ابوہریرہ ؓ اور ابن جریر نے حضرت انس ؓ کی روایت کے حوالے سے لکھا ہے کہ بحرین کے رہنے والے قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ جو مرتد ہو کر صدقہ کے اونٹ چوری سے ہانک کرلے گئے تھے اور چرواہے کو بھی قتل کر گئے تھے جن کو آنحضرت نے پھر پکڑوایا اور مروا ڈالا ان کی شان میں یہ آیت اتری ہے اور جمہور مفسرین کا قول ہے کہ راہ زنی کرنے والا خواہ مرتد ہو یا مسلمان سب کی سزا کے بیان میں یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور جس طرح عبد الرزاق اور ابن جریر نے اپنی تفسیروں میں قبیلہ عرینہ کے قصے کو اس َآیت کا شان نزول قرار دیا ہے۔ اسی طرح ابو داؤد نے بھی اس قصہ کو شان نزول اس آیت کا قرار دیا ہے 1 ؎۔ اور یہ قصہ بدوں ذکر شان نزول آیت کے صحیحین میں بھی آیا ہے اور حاصل قصہ کا یہ ہے کہ آنحضرت کا ایک غلام تھا اس کا نام یسار ؓ تھا وہ نماز دل لگا کر پڑھا کرتا تھا اس لئے آپ نے اس کو آزاد کردیا تھا اور صدقہ کے نو دس اونٹ دودھ کی اونٹنیاں خود آنحضرت کی مدینہ کے جنگل میں چرا کرتی تھیں ان کو یہ یسار ؓ چرایا کرتا تھا۔ یہ عرینہ قبیلہ کے لوگ کچھ دنوں تو مسلمان ہو کر خاص مدینہ میں رہے پھر ان کے پیٹ بڑھ گئے اور رنگ زرد ہوگئے تو گئے تو انہوں نے مدینہ کی آب و ہوا کی آنحضرت ﷺ سے شکایت کی اس لیے آپ نے ان لوگوں کو یسار ؓ کے ساتھ جنگل جانے کا حکم دیا تھا۔ ایک روز انہوں نے موقع پاکر کانٹے چبھو کر یسار ؓ کی آنکھیں پہلے پھوڑ ڈالیں پھر یسار ؓ کو قتل کر کے وہ اونٹ اور اونٹنیاں لے کر اپنے وطن بحرین کی طرف مرتد ہو کر بھاگے۔ جب مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو آنحضرت ﷺ نے جریر بن عبد اللہ ؓ کو سردار قرار دے کر کچھ مسلمانوں کو قبیلہ عرینہ کے لوگوں کی تلاش میں روانہ کیا اور یہ لوگ آخر کو پکڑے آئے اور آپ نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری اور ان کو قتل کر ڈالا 2 ؎۔ اب اس قصہ سے چند فائدہ حاصل ہوئے ایک تو یہ کہ بعض مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ اس حدیث میں آنکھوں کی سلائی پھیرنے کا جو مذکور ہے وہ اس آیت سے منسوخ ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ مسلم، نسائی اور ترمذی کی حضرت انس ؓ کی حدیث میں جب یہ صراحت آچکی ہے کہ ان لوگوں نے یسار ؓ کی آنکھیں پھوڑ ڈالی تھیں 3 ؎۔ تو اس حدیث میں ان لوگوں کی آنکھوں کا پھوڑنا العین بالعین کے موافق بطور قصاص کے تھا جو منسوخ نہیں ہے اسی طرح بعض مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ یہ آیت آنکھوں کی سلائی پھیرنے پر بطور عتاب کے نازل ہوئی وہ بھی صحیح روایتوں میں ہے۔ کہ جریر بن عبد اللہ ؓ کا اسلام لانا سورة مائدہ کے نزول کے بعد ہے 1 ؎۔ اس وجہ سے بعض مفسروں کا یہ قول بھی صحیح نہیں ہے کہ وہ حدیث کا قصہ آیت کے نزول سے بہت پہلے ہے 2 ؎ یَحَارِبُوْنَ محاربہ سے ہے محاربہ کے معنی مخالفت کے ہیں۔ قتادہ کے قول کے موافق اس آیت میں محاربہ کے معنی راہ زنی کے ہیں یہ قتادہ طبقہ تابعین میں ثقہ اوکر قدیم مفسروں میں ہیں۔ ناقابل اعتراض سند سے مسند امام احمد تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ راہ زن اگر فقط راستہ میں لوٹے تو اس کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پیر کاٹا جاوے اگر کسی کو قتل کر کے مال لوٹے تو ایسے راہ زن کو پہلے قتل کیا جاوے پھر لوگوں کی عبرت کے اس کو سولی پر چڑھایا جاوے۔ اگر فقط قتل کرے اور مال نہ لوٹے تو اس کی سزا فقط قتل ہے۔ اگر فقط راہ زنی کے ارادہ سے کہیں بیٹھا ہو نہ کسی کا مال ابھی اس نے لیا ہو نہ کسی کو جان سے مارا ہو تو ایسے راہ زن کا اس سر زمین سے اخراج کردینا کافی ہے 3 ؎۔ آگے فرمایا راہ زنوں کی یہ سزا تو دنیوی ہے اگر پکڑے جانے سے پہلے بغیر توبہ کے وہ مرگئے یا پکڑے گئے اور دنیوی سزا کے بعد بھی مرتد رہے تو عقبیٰ میں ان کو سخت عذاب بھگتنا پڑے گا۔ صحیح بخاری اور مسلم میں عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا مسلمان شخص کے حق میں دنیوی سزا کفارہ ہے 4 ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیوی سزا کے بعد آخرت کے عذاب کا جو حکم اس آیت میں ہے وہ مرتد کے لئے ہے اب پکڑے جانے سے پہلے جس راہ زن نے توبہ کرلی اگر ایسا راہ زن مرتد تھا اسلام کے بعد اس کو سزا نہ دی جاوے گی اور اگر ایسا راہ زن مسلمان تھا تو اس کی چوری کی سزا دینے کے اکثر سلف قائل نہیں ہیں آیت میں بھی پکڑے جانے سے پہلے جو توبہ کر لیوے اس کو عام طور پر بیان فرمایا ہے۔ مرتد اور مسلمان دونوں میں کچھ فرق نہیں رکھا 5 ؎۔ توبہ کے بیان میں یہ اوپر گزر چکا ہے کہ حق العباد کے گناہ میں فقط توبہ کافی نہیں ہے بلکہ صاحب حق کی معافی یا تلافی سے توبہ کامل کر لیوے تاکہ قیامت کے دن اسے اس حق کے معاوضہ میں اپنی نیکیاں صاحب حق کو نہ دینی پڑیں۔ صحیح مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث اوپر گزرچکی ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگوں کے اعمال ناموں میں سب طرح کے نیک عمل ہوں گے۔ لیکن ان کے ذمہ لوگوں کے حقوق ہوں گے جن حقوق کے معاوضہ میں وہ سب نیک عمل صاحب حق لوگوں کو مل جاویں گے اور یہ نیک عمل والے خالی ہاتھ رہ کر جہنم میں چلے جاویں گے 1 ؎۔ یہ حدیث آیت کے آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان راہزن صاحب حق شخص کا کچھ معاوضہ دنیا میں نہ کرے تو قیامت کے دن وہ معاوضہ اس طرح ہوگا جس کا ذکر اس حدیث میں ہے۔
Top