Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 76
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا١ؕ وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
قُلْ : کہ دیں اَتَعْبُدُوْنَ : کیا تم پوجتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : مالک نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے ضَرًّا : نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہی السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
کہو کہ تم خدا کے سوا ایسی چیز کی کیوں پرستش کرتے ہو جس کو تمہارے نفع اور نقصان کا کچھ بھی اخیتار نہیں ؟ اور خدا ہی سب کچھ سنتا جانتا ہے۔
(76 ۔ 77) ۔ اوپر ذکر تھا کہ نصاریٰ میں بعض لوگ مسیح بن مریم کو خدا کہتے تھے اور بعض خدا کا شریک ٹھیراتے تھے ان ہی لوگوں کے سمجھانے کے لئے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو مخاطب ٹھیرا کر فرماتا ہے کہ اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ سوا اللہ تعالیٰ کے جن کو تم اپنا معبود ٹھیراتے ہو نہ ان کو تمہارے برے بھلے کا کچھ اختیار ہے نہ تمہارے حاضر و غائب سب کی التجا سن لینے کی ان میں کچھ قدرت ہے نہ ہر ایک کی دلی التجا کا انہیں کچھ حال معلوم ہوسکتا ہے۔ یہ اللہ ہی کی ذات ہے کہ وہ ہر ایک کی التجا سنتا ہے ہر ایک کے دلی مقصد کو خوب جانتا ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ بنی اسرائیل بڑی ذلت و خواری سے فرعون کے بس میں تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بہبودی کا ارادہ کیا تو فرعون نے کے پھندے سے ان کو نکال کر نبوت بادشاہت سب کچھ ان کو دے دیا۔ پھر جب انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اس قادر مطلق نے اسی ذالت و خواری کا دن انہیں پھر دکھا دیا۔ آدمی کے غور کرنے کیلئے ایسی بےگنتی مثالیں اس کی قدرت کی دنیا میں اب بھی موجود ہیں۔ ان لوگوں کا تو یہ حال کہ یہ مسیح بن مریم کو خدا یا خدا کا شریک کہیں اور خود مسیح بن مریم کا یہ حال کہ انہوں نے اسے میرے معبود اے میرے معبود کہہ کہہ کر اپنے آخری وقت پر اپنی طرح طرح کی التجا اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کی جس کا ذکر انجیل متی کے ستائیسویں باب میں ہے۔ مسیح بن مریم تو اپنے بندے ہونے اور اللہ تعالیٰ کے معبود حقیقی ہونے کی اس آخری اقرار پر دنیا سے اٹھ گئے۔ لیکن اس پر بھی یہود نے ان کے گھٹانے میں یہاں تک مبالغہ کیا کہ ان کو اللہ کا رسول بھی نہیں کہتے۔ نصاری نے ان کے بڑھانے میں یہاں تک مبالغہ کیا کہ ان کو خدایا خدا کا شریک ٹھیرایا۔ یہ سب باتیں ان کے بڑوں کی تراشی ہوئی ہیں جو خود بھی بےراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی بےراہ کیا حال کے لوگ بھی اگر ان بےراہ بڑوں کی پیروی میں عمر بھر لگے رہیں گے اور پھر عقبیٰ میں اپنے بہبودی کی توقع اللہ تعالیٰ سے رکھیں گے تو یہ بڑی نادانی کی بات ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالے سے شداد بن اوس ؓ کی معتبر سند کی حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے 1 ؎۔ جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص عمر بھر اپنی خواہش نفسانی کا پیرورہا اور پھر اللہ تعالیٰ کی ذات سے اس نے عقبیٰ کی بہبودی کی توقع رکھی وہ شخص بڑا نادان ہے 2 ؎۔ یہ حدیث گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے۔
Top