Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
مومنو ! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
(87 ۔ 88) ۔ ترمذی ابن ابی حاتم جریر ابن عساکر وغیرہ نے اس آیت کی شان نزول جو بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت سے بیان کیا کہ گوشت کے کھانے سے مجھ کو عورتوں کی صحبت کی خواہش زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس سبب سے میں نے گوشت نہ کھانے کی قسم کھالی ہے۔ بعض صحابہ نے اچھی چیز کا کھانا اچھے کپڑے کا پہننا۔ مباشرت کا کرنا ترک کردیا تھا۔ اور ایک صحابی تھے جن کے گھر میں ایک مہمان آئے ہوئے تھے ان صحابی کو آنحضرت کے پاس سے گھر جانے میں دیر ہوگئے۔ ان کی بی بی نے ان کے انتظار میں مہمان کو کھانا نہیں دیا۔ جب یہ گھر گئے ان کو مہمان کے بھوکا رکھنے سے اپنی بی بی پر غصہ آگیا۔ اس لئے انہوں نے اس روز کھانا کھانے کی قسم کھالی ان کی قسم کے سبب سے بی بی اور مہمان نے بھی قسم کھالی غرض اس طرح کے چند قصوں کے جمع ہوجانے سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎۔ اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ اللہ کی راہ حلال کی ہوئی چیزوں کو غصہ میں آن کر یا غیر کا حق تلف کر کے اپنے اوپر حرام نہیں کرنا چاہیے ہاں کسی چیز کے حلال ہونے کے اعتقاد رکھ کر سہولت عبادت یا کسی اور غرض سے چند روز کسی چیز کو چھوڑ دیا جاوے تو وہ اور بات ہے۔ اسی طرح کے قصے صحابہ کے سن کر آپ نے فرمایا ہے کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتے ہیں۔ میں تو نبی ہو کر روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور مباشرت بھی کرتا ہوں۔ اور جو کوئی میری سنت کے خلاف کرے گا۔ میں اس سے بیزار ہوں۔ یہ حدیث صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے ہے 2 ؎ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرع میں حلال حرام چیزوں کی جو حد ٹھیرادی ہے ہر ایماندار شخص کو اس حد کی پابندی ضروری ہے۔ کیونکہ اس حد سے باہر قدم رکھنے میں احکام الٰہی کی ایک طرح کی نافرمانی اور شیطان کے بہکاوے کی ایک طرح کی پاسداری ہے۔ جس سے ہر ایماندار کو بچنا اور پرہیز کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم کی عیاض بن حمار کی حدیث سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جو چیزیں میں نے اپنے بندوں پر حلال کی تھیں شیطان کے بہکانے سے وہ انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلی ہیں 3 ؎۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے طور پر شرعی حلال کو حرام یا حرام کو حلال ٹھہرانا شیطانی بہکاوے کے اثر سے ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔
Top