Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ١ۚ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَيَبْلُوَنَّكُمُ : ضرور تمہیں آزمائے گا اللّٰهُ : اللہ بِشَيْءٍ : کچھ (کسی قدر) مِّنَ : سے الصَّيْدِ : شکار تَنَالُهٗٓ : اس تک پہنچتے ہیں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَرِمَاحُكُمْ : اور تمہارے نیزے لِيَعْلَمَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ معلوم کرلے مَنْ : کون يَّخَافُهٗ : اس سے ڈرتا ہے بِالْغَيْبِ : بن دیکھے فَمَنِ : سو جو۔ جس اعْتَدٰي : زیادتی کی بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فَلَهٗ : سو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
مومنو ! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو خدا تمہاری آزمائش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تاکہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے تو جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔
(94 ۔ 95) ۔ مقاتل بن حیان نے کہا کہ عمرہ حدیبیہ کے سال احرام کی حالت میں صحابہ کرام ؓ جا رہے تھے اس وقت یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے مقاتل بن حیان اور مقاتل بن سلیمان دو مقاتل ہیں جن علماء نے مقاتل بن حیان کو ضعیف کہا ہے انہوں نے مقاتل بن سلیمان کے شبہ میں کہا ہے ورنہ یحییٰ بن معین ابو داؤد اور بہت سے علماء نے مقاتل بن حیان کی توثیق کی ہے یہ مقاتل بن حیان صحیح مسلم کے راویوں میں ہیں۔ سفر حدیبیہ کے وقت شان نزول اس آیت کی خازن وغیرہ میں ہے 4 ؎۔ حاصل اس شان نزول کی روایت کا یہ ہے کہ اس عمرہ کے سفر میں خلاف عادت امتحان کے طور پر ان صاحب احرام صحابلہ کو بہت سے جنگلی جانور نظر آئے تاکہ معلوم ہوجاوے کہ ان جانوروں کے نظر آنے کے وقت آنکھوں سے بن دیکھے عذاب الٰہی سے ڈر کر کون شکار کے مناہی کے حکم کی پابندی کرتا ہے اور کون اس کی پابندی نہیں کرتا ” کچھ ایک شکار “ اس کا مطلب یہ ہے کہ فقط جنگلی جانوروں کا شکار دریائی جانوروں کا سا نہیں چھوٹے جانور ہاتھ سے پکڑے جاسکتے ہیں اس لئے نیزے کے ساتھ ہاتھ کا بھی ذکر فرمایا اگرچہ احرام کی حالت میں ہر طرح کے ہتھیار سے شکار منع ہے لیکن عرب کے لوگ نیزے سے اکثر شکار کھیلا کرتے تھے اس واسطے خاص طور پر نیزے کا ذکر فرمایا اللہ تعالیٰ کی جانچ پڑتال کا ذکر جہاں کہیں قرآن شریف میں آتا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ اپنے علم ازلی میں اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو جس طرح جانا اور جانچا ہے سزا و جزا کے لئے دنیا میں اس کا ظہور بھی اسی طرح ہوجاوے ورنہ ازل سے ابد تک اللہ تعالیٰ کے علم اور جانچ سے کوئی چیز باہر کسی وقت نہیں ہے اب آگے فرمایا کہ اس شکار کی ممانعت کے حکم کے بعد جو کوئی اس کی پابندی نہ کرے گا اس کو عقبیٰ میں سخت عذاب بھگتنا پڑے گا صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابو قتادہ ؓ کی حدیث ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابو قتادہ کو آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ کے سفر سے پہلے کسی جگہ کچھ کام کو بھیجا تھا جہاں سے وہ بغیر احرام باندھنے کے آئے اور حدیبیہ کے لشکر میں آ کر اترے اتنے میں ان کو ایک گورخر جنگل میں نظر آیا جس کو دیکھ کر جلدی سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئے اور اپنا نیزہ اور کوڑا لینا بھول گئے اس کے انہوں نے چند دفعہ اپنے جان پہچان صحابہ سے نیز اور کوڑا پکڑا دینے کو کہا لیکن احرام کے لحاظ سے ان صحابہ نے ابو قتادہ ؓ کی مدد سے صاف انکار کردیا 1 ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں جو جانچ تھی اس میں صحابہ کرام اس قدر ثابت قدم رہے کہ خود شکار کھیلنا تو درکنار دوسرے شکاری کی مدد کی بھی انہوں نے جرأت نہ کی شروع سورة کی آیت غیر محلی الصید و انتم حرم کے موافق اگرچہ آئندہ کی آیت کے نازل ہونے سے پہلے احرام کی حالت میں شکار منع تھا لیکن وہاں شروع سورة کی آیت میں یہ تفصیل نہ تھی کہ اگر حالت احرام میں کوئی شخص شکار کھیل بیٹھے تو تو اس کا کیا حکم ہے اس واسطے آئندہ کی آیت میں تاکید کے طور پر شکار کی مناہی کو دوبارہ ذکر فرما کر حالت احرام میں جو شخص شکار کھیل بیٹھے اس کا حکم بیان فرمایا اس حکم کا حاصل یہ ہے کہ احرام کی حالت میں اول تو شکار کی مناہی ہے اس پر بھی احرام کی حالت کو یاد رکھ کر کوئی شخص شکار کھیل بیٹھے تو اس کی سزا یہ ہے کہ جس قسم کے جنگلی جانور کا شکار کیا ہے اسی قسم کے شہر چوپالوں میں سے ایک جانور خرید کر حرم میں اس کی قربانی کرے مشابہت کے لحاظ سے جنگلی اور شہری جانوروں کی قسم دو منصف پنچ ٹھہرا دینگے یہ اس وقت کا حکم تھا اب خود آنحضرت ﷺ یا صحابہ نے پنچ بن کر جو قسم داری ٹھہرا دی ہے تو اس کے موافق عمل ہوگا۔ مثلاً ہرن کی مشابہت بکری سے ٹھہر چکی ہے تو اب اس میں جدید پنچ ٹھہرانے کی ضرورت نہیں ہے ہاں جہاں ایسا نہ ہو وہاں جدید دو پنچ قرار دینے چاہئیں یہ قسم داری جب ٹھہر جاوے تو اکثر سلف کا یہی قول ہے کہ شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ ان داموں کا کوئی قربانی کا جانور خرید کر کے حرم میں اس کی قربانی کرے یا ان داموں میں جس قدر محتاج پیٹ بھر کر کھانا کھا سکتے ہوں ان کو کھانا کھلا دیوے یا ہر مسکین کے کھانے کے معاوضے میں ایک روزہ قرار دیکر مسکینوں کی تعداد کے موافق روزے رکھ لیوے یہ جنگلی اور شہری جانوروں کی مشابہت اکثر سلف کے نزدیک پیدائشی صورت و سیرت میں دیکھی جاوے گی جس طرح مثلاً ہرن پیدائشی صورت و سرات میں بکری سے مشابہ ہے جہاں یہ بات ممکن نہ ہو تو پھر قیمت کے اندازے سے کام لیاجاوے گا۔ اس مسئلہ میں سلف کا جو کچھ اختلاف ہے اس کی تفصیل بڑی کتابوں میں ہے 1 ؎۔ آگے فرمایا احرام کی حالت میں شکار کھیلنے والے شخص کی یہ سزا اس لئے قرار دی گئی ہے کہ وہ اپنے کئے کا خمیازہ بھگت لیوے اور پھر ایسا کام نہ کرے ہاں اس مناہی کے حکم سے پہلے جو کچھ ہوچکا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل معافی ہے لیکن حکم مناہی کے بعد بھی ایسا کرے گا اور کر کے اس سے توبہ نہ کرے گا تو دنیوی سزا کے علاوہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے اور بھی بدلہ لیوے گا اور اللہ تعالیٰ بدلہ لینے میں زبردست ہے کہ اس کے بدلہ لینے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ ترجمہ میں انتقام کا ترجمہ بیر جو کیا ہے اس کا مطلب بدلہ لینے کا ہے۔ معتبر سند کی سہل بن سعد ؓ کی حدیث مسند امام احمد کے حوالہ سے ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک چھوٹا گناہ مثل ایک سوکھی لکڑی کے ہے اور بہت سے چھوٹے چھوٹے گناہ مثل لکڑیوں کے ڈھیر میں آگ لگ جانے کا خوف ہے 2 ؎۔ اس مضمون کی نسائی میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ ؓ کی بھی روایتیں ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت کو ابن حبان نے صحیح کہا ہے 3 ؎۔ یہ حدیثیں آیت ومن عاد فینتقم اللہ منہ کی گویا تفسیر ہیں۔ آیت اور ان حدیثوں کو ملانے سے یہ مطلب پیدا ہوا کہ بےپروائی سے جو شخص گھڑی گھڑی حالت احرام میں شکار کھیلتا رہے گا اس کو عقبیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ ابو قتادہ ؓ کی حدیث جو اوپر گذری مسلم کی روایت میں یہ لفظ اس میں زیادہ ہیں کہ جب صحابہ ؓ نے اس ابو قتادہ ؓ کے بھیجے ہوئے گوشت کے کھانے کی اجازت آنحضرت ﷺ سے چاہی تو آپ نے اجازت دینے سے پہلے احرام والے صحابہ ؓ سے یہ بات دریافت کی کہ تم لوگوں نے شکار کے وقت شکار کے بتلانے کی یا کسی اور طرح کی مدد تو ابو قتادہ ؓ کو نہیں دی۔ اب جواب کے بعد آپ نے ان احرام والے صحابہ کو شکار کے گوشت کے کھانے کی اجازت دی اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح احرام کی حالت میں شکار کا کھیلنا منع ہے اسی طرح شکاری کی ہر طرح کی مدد بھی منع ہے۔ احرام والے شخص کی خاطر سے غیر احرام والا کوئی شخص شکار مار لے تو وہ گوشت بھی احرام والے شخص کو منع ہے چناچہ معتبر سند سے مسند امام احمد اور ابن ماجہ میں ابو قتادہ ؓ کی جو روایتیں ہیں ان میں اس کا ذکر ہے
Top