Ahsan-ut-Tafaseer - Adh-Dhaariyat : 15
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی (جمع) فِيْ جَنّٰتٍ : باغات میں وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بیشک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں (عیش کر رہے) ہوں گے
15۔ 23۔ اوپر اہل دوزخ کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اہل جنت کا ذکر فرمایا ادنیٰ درجہ کا متقی وہ ہے جو شرک اور ریاکاری سے باز رہے اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کا جو شخص جس قدر پابند ہوگا اسی قدر اس کا مرتبہ متقیوں میں ہوگا پاتے ہیں جو دیا ان کو ان کے رب نے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نیک عملوں کی جزا میں اللہ تعالیٰ نے جو بےحساب جنت کی نعمتیں ان کو عنایت فرمائیں وہ انہوں نے بھر پائیں اور وہ لوگ ان نعمتوں سے خوش اور راضی ہیں۔ صحیح 1 ؎ بخاری ‘ مسلم اور ترمذی کی ابو سعید کی حدیث ایک جگہ ذکر کی جا چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے پوچھے گا کہ تمہارے عملوں کی جزا سے بڑھ کر اپنی رحمت سے جو نعمتیں میں نے تم کو دیں ان سے تم خوش ہو وہ کہیں گے کہ یا اللہ ہم بہت خوش ہیں۔ یہ ٹکڑا اس حدیث کا آیت کے ٹکڑے کی پوری تفسیر ہے۔ بعض مفسروں نے آیت کے اس ٹکڑے کے اور معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن صحیح حدیث کے موافق صحیح معنی آیت کے یہی ہیں جو بیان کئے گئے ہیں وہ تھے اس سے پہلے نیکی والے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں یہ لوگ ریا کاری سے بچ کر خالص عقبیٰ کے ثواب کی نیت سے نیک عمل کیا کرتے تھے اس کے بدلے میں ان کو جنت ملی ہے۔ صحیح 2 ؎ مسلم کی حضرت عمر کی حدیث مشہور ہے جس میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے سائل بن کر چند مسئلے پوچھے ہیں اور آنحضرت ﷺ نے ان کے جوابات میں احسان کے یہ معنی بتائے ہیں کہ عبادت کے وقت یا تو آدمی یہ خیال کر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے ورنہ کم سے کم اتنا خیال تو چاہئے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے اسی لئے آیت میں محسنین کا لفظ فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ قابل قبول عبادت میں بغیر ریا کاری کے خالص عقبیٰ کے ثواب کی نیت ضروری ہے۔ ابو دائود 3 ؎ اور نسائی میں معتبر سند سے ابو امام کی حدیث ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ بغیر عقبیٰ کے ثواب کی خالص نیت کے کوئی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا۔ وہ تھے رات کو تھوڑا سوتے کا مطلب یہ کہ رات کو سونا کم اور عبادت بہت یہ ان لوگوں کی دنیا میں عادت تھی صحیح 4 ؎ بخاری و مسلم و نسائی اور ابو داؤود میں عمرو بن العاص سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو دائود (علیہ السلام) کی عبادت کا طریقہ بہت پسند تھا۔ پھر فرمایا۔ دائود (علیہ السلام) رات کا چوتھائی حصہ عبادت میں گزار کرتے تھے مسلم 5 ؎ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے دائود (علیہ السلام) کی عبادت کا حال آنحضرت ﷺ سے سن کر یہ کہا کہ مجھ میں اس سے افضل عبادت ادا کرنے کی طاقت ہے ‘ آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں اس سے افضل طریقہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے چوتھائی حصہ رات کا عبادت میں گزارا تو اس کے حق میں یہ کہا جائے گا کہ وہ رات کو سویا کم اور افضل مرتبہ عبادت کا اس نے ادا کرلیا۔ صبح کے وقتوں میں معافی مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی رات سے لے کر صبح صادق تک خاص طور پر قبولیت کے وقت میں یہ لوگ اپنے گناہوں کی معافی دنیا میں اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو معاف کردیا۔ صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تیسرا حصہ رات کا باقی رہتا ہے تو ہر رات کو اللہ تعالیٰ اول آسمان پر نزول فرما کر ارشاد فرماتا ہے کون توبہ استفغار کرتا ہے تاکہ میں اس کی مغفرت کروں۔ اس حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی تفسر ہے کیونکہ آیت میں صبح کی استغفار کی تعریف کی گی ہے اور حدیث میں اس تعریف کا سبب سمجھایا گیا ہے ان کے مال میں حصہ تھا مانگتے اور ہارے کا اس کا مطلب یہ ہے کہ سوا عبادت بدنی کے مالی عبادت بھی ان لوگوں کی عادت تھی۔ یہ نفلی صدقہ کا ذکر ہے کیونکہ یہ سورة مکی ہے اور زکوٰۃ اکثر سلف کے نزدیک مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔ طبرانی کبیر 2 ؎ میں معتبر سند سے ابو امامہ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا چھپا کر صدقہ خیرات کا کرنا ‘ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے سائل وہ ہے جو سوال کرے اور محروم وہ ہے جو باوجود تنگ دست ہونے کے لحاظ کے مارے کسی سے سوال نہ کرے۔ اوپر سے حشر کا جو ذکر تھا اب آگے اس سلسلہ کو پورا کرنے کے لئے فرمایا کہ جو صاحب قدرت آسمان سے مینہ برسا کر زمین سے مثلاً ایک اناج کے دانے سے ہزاروں دانے اور ایک میوے کی گٹھلی سے ہزاروں میوے کی چیزیں پیدا کرتا ہے اور جس نے خلاف عقل ایک بوند پانی سے انسان کو پیدا کرکے بچہ سے بڑھاپے تک اس میں طرح طرح کے نمونے رکھے جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ سب باتیں ایسے لوگوں کے لئے پوری حشر کی نشانیاں ہیں جو علم ازلی الٰہی میں حق بات پر یقین لانے والے ٹھہرے ہیں۔ ہاں علم ازل الٰہی میں جو گمراہ قرار پا چکے ہیں وہ ان سب نشانیوں کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر بھی طرح طرح کے شک و شبہ میں رہیں گے اور اسی حالت میں مر کر آخر کو دوزخی ہو کر اٹھیں گے۔ معتبر سند سے مسند 3 ؎ امام احمد میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث منکر نکیر کے سوال و جواب کے ذکر میں ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قبر میں جو نیک شخص اللہ کے فرشتوں کے سوال کا اچھی طرح جواب ادا کردیتا ہے تو وہ فرشتے اس شخص سے کہتے ہیں اے شخص تو دنیا میں دین کی باتوں کو یقین جان کر اپنی زندگی بستر کرتا تھا جس یقین کے سبب سے تو دین کی باتوں سے غافل نہیں رہا اور اسی یقین کی حالت پر تو مرا۔ اب انشاء اللہ تعالیٰ اسی حالت پر تو قیامت کے دن قبر سے اٹھے گا جو شخص ان فرشتوں کا جواب اچھی طرح نہیں دیتا اس سے وہ فرشتے ہیں تو شک کی حالت میں جیا اور مرا ‘ اور اسی حالت میں تو قیامت کے دن قبر سے اٹھے گا۔ جن اہل یقین کا آیت میں ذکر وے ان کی حالت کی اور ان کے مقابل اہل شک کی حدیث کے اس ٹکڑے میں تفسیر ہے۔ پھر قسم کھا کر فرمایا کہ جس طرح تم لوگ آپس میں بات چیت وعدہ و عید کرتے ہو اور اس پر دنیا کے ہر طرح کے معاملات چلاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو جزا و سزا کا وعدہ تم سے کیا ہے اس پر اگر تم اپنی آپس کی باتوں کے برابر بھی بھروسا کرو گے تو عقبیٰ کی طرف سے یہ غفلت جو تمہارے دل پر چھائی ہوئی ہے وہ جاتی رہے گی اور عقبیٰ کے درست کرنے کا خیال تمہارے دل میں جم جائے گا اور اللہ کے ساتھ تمہارا معاملہ اچھا ہوجائے گا۔ ورنہ مرنے کے بعد وہ تکلیف اٹھانی پڑے گی جو بیان سے باہر ہے ترمذی 1 ؎ وغیرہ میں ابی بکرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت نیک آدمی کی کیا علامت ہے آپ نے فرمایا جس کی عمر بڑی ہو اور نیک کاموں میں مشغول رہے اور بد آدمی وہ ہے جو اس حالت کے برخلاف ہو۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (1 ؎ صحیح مسلم باب الجنۃ وصفۃ نعیمھا و اھلھا ص 378 ج 2 و صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ص 969 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم کتاب الایمان ص 27 ج 2۔ ) (3 ؎ الترغیب والترہیب باب اترغیب فی الاخلاص والصدق الخ ص 36 ج 1۔ ) (4 ؎ صحیح بخاری باب احب الصلوٰۃ الی اللہ صلوٰۃ دائود ص 486 ج 1۔ ) (5 ؎ صحیح مسلم باب نھی عن صوم الدھر الخ ص 365 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب صلوۃ اللیل الخ ص 258 ج 1 و صحیح بخاری باب الدعاء والصلوٰۃ اخر اللیل الخ ص 153 ج 1۔ ) (2 ؎ الترغیب والترہیب باب الرغیب فی صدقۃ السر ص 39 ج 2۔ ) (3 ؎ الترغیب والترہیب باب ما جاء فی عذاب القبر و نعیمہ الخ ص 698 ج 4۔ ) (1 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی طول العمر للمومن ص 68 ج 2۔ )
Top