بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
بکھیرنے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں
1۔ 14۔ الذاریات ‘ الحاملات ‘ الجاریات ‘ المقسمات ‘ یہ سب صفتیں ہیں جن کے موصوف کا کلام الٰہی میں کچھ ذکر نہیں ہے۔ اسی واسطے بعض مفسروں نے کچھ موصوف قرار دیا ہے اور بعض نے کچھ ‘ لیکن سلف کا زیادہ مشہورقول یہ ہے کہ ذریت کا موصوف وہ تیز ہوا ہے جو مینہ سے پہلے بادلوں کو اکٹھا کرتی ہے حملت کاموصوف وہ بادل ہے جس میں پانی کا بوجھ ہو ‘ جاریات وہ کشتیاں جو منیہ برسنے کے بعد دریا اور ندی نالوں میں چلتی ہیں ‘ جن سے تجارت ہوتی ہے۔ مقسمت کے موصوف وہ فرشتے ہیں جو تمام شہروں میں مینہ کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں۔ 2 ؎ اس قسم کے بعد یہ فرمایا کہ حشر اور اس دن کی جزا و سزا کا وعدہ جو اللہ کے رسول نے لوگوں سے کیا ہے وہ ایسا ایک سچا وعدہ ہے جس میں کچھ شک نہیں ہے۔ پھر آسمان کی قسم کھا کر فرمایا کہ یہ اہل مکہ قرآن کے جھٹلانے میں کوئی ٹھکانے کی بات نہیں کہتے۔ بےٹھکانی باتیں بناتے ہیں ورنہ سمجھ دار کے لئے تو قرآن میں وہ نصیحتیں ہیں کہ سوائے بدبخت ازلی کے اور سب پر ان نصیحتوں کا اثر پڑتا ہے پھر فرمایا کہ جو لوگ دنیا کی پیدائش پر غور ہیں کرتے کہ جب سزا و جزا نہیں تو پھر آخر یہ دنیا کا اتنا بڑا کارخانہ کس لئے پیدا کیا گیا ہے بلکہ بجائے اس کام کی بات پر غور کرنے کے دنیا کے مال و متاع کی غفلت اور بھول میں پھنس کر حشر کے باب میں یہ لوگ طرح طرح کی اٹکلیں دوڑاتے ہیں اور مسخرا پن سے پوچھتے ہیں کہ وہ سزا و جزا کا دن کب ہے۔ ایسے لوگوں پر خدا کی پھٹکار ہے اور وہ اللہ کے علم ازلی میں دوزخی قرار پا چکے ہیں۔ اے رسول اللہ کے ایسے لوگوں کو اتنا ہی جواب دیا جائے کہ یہ سزا کا دن جب ہوگا کہ ایسے لوگ آگ میں جلیں گے اور اللہ کے فرشتے ان کو ذلیل کرنے کے لئے یہ کہیں گے کہ مسخرا پن سے جس عذاب کی دنیا میں تم لوگ جلدی کیا کرتے تھے سو آج اس عذاب کا مزہ چکھو۔ صحیح 1 ؎ مسلم کی انس بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے آسوہ حال نافرمان لوگوں سے دوزخ کے پہلے ہی جھونکے کے بعد فرشتے پوچھیں گے کہ دنیا کی جس آسودہ حالی نے تم کو دین سے غافل کرکے اس عذاب میں گرفتار کردیا اس عذاب کے آگے وہ آسودہ حالی کچھ تم کو یاد ہے یا نہیں۔ وہ لوگ قسم کھا کر کہیں گے کہ نہیں یہ حدیث فی غمرۃ ساھون کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آیت میں اس آسودہ حالی کی مذمت ہے جو دین سے آدمی کو غافل کر دے اور حدیث میں یہ صراحت ہے کہ یہ مذمت کچھ دنیا میں ہی نہیں بلکہ عقبیٰ میں بھی اللہ کے فرشتے اس کا اولاہنا دیں گے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق حبک کے معنی آسمان کی خوبصورتی اور ہمواری 2 ؎ کے ہیں۔ بعض سلف کا قول ہے کہ پانی یا ریت میں ہوا سے خانے خانے پڑ کر ایک جالی جو ہوجاتی ہے اس کو حبک 3 ؎ کہتے ہیں ترجمہ میں یہی قول لیا گیا ہے۔ (1 ؎ جامع ترمذی ابواب العلم ص 109 جلد 2۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم بیان کون النھی عن المنکر من الایمان الخ ص 50 ج 1۔ ) (1 ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب العلم ص 37۔ 38 ملاحظہ فرمائیں۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 231 ج 4۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب فی الکفار ص 374 ج 2۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر 232 ج 4۔ ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر 232 ج 4۔ )
Top