Ahsan-ut-Tafaseer - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہونچی ہے ؟
24۔ 30۔ یہ قصہ سورة ہود اور سورة حجر میں گزر چکا ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ امام المفسرین 2 ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق جبرئیل و میکائیل و اسرافیل (علیہم السلام) آدمی کی صورت میں مہمانوں کے طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے پہل ان کو نہیں پہچانا کہ یہ فرشتے ہیں ‘ اس واسطے اپنی مہمان نوازی کی عادت کے موافق ان کے رو برو کھانا لا رکھا جب ان مہمانوں نے کھانا نہ کھایا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جی میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ جب یہ کھانا نہیں کھاتے تو کسی ضرر کے ارادہ سے آئے ہیں۔ اللہ کے فرشتوں نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو خوف زدہ پا کر کہا کہ نبی اللہ کے تم کچھ خوف نہ کرو۔ یہ کہہ کر پھر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو اسحاق ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی۔ مجاہد کی روایت کے حوالہ سے بعض تفسیروں 3 ؎ میں یہ جو لکھا ہے کہ یہ خوش خبری حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی تھی۔ یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ قصہ سورة ہود میں گزر چکا ہے۔ اور وہاں قرآن شریف میں صاف حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا نام آچکا ہے۔ پھر قرآن شریف کے مخالف کوئی تفسیر کیونکر مقبول ہوسکتی ہے غرض صحیح تفسیر یہی ہے کہ سورة و الصفت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نیک اولاد کی دعا کے بعد جو خوش خبری ہے وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوش خبری ہے اور یہ خوش خبری پہلی خوش خبری کے چودہ برس کے بعد ہے اس خوش خبری کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو برس کی تھی۔ اور آپ کی بی بی سارہ کی عمر ننانوے برس کی تھی اور جوانی میں وہ بانجھ تھیں اس واسطے یہ خوش خبری سن کر انہوں نے تعجب سے اپنا منہ پیٹ لیا جب اللہ کے فرشتوں نے ان کی تسکین کی کہ جس طرح ہم نے خوش خبری دی ہے اللہ کا حکم یونہی ہے اللہ بڑا حکمت والا ہے اور اس کی حکمت کے بھید اسی کو خوف معلوم ہیں اس خوش خبری کے ایک برس بعد حضرت اسحاق ( علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 114 ج 6۔ )
Top