Ahsan-ut-Tafaseer - Adh-Dhaariyat : 31
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : تو کیا قصہ ہے تمہارا اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ : اے فرشتو۔ بھیجے ہوؤں
ابراہیم نے کہا کہ فرشتو ! تمہارا مدعا کیا ہے ؟
31۔ 37۔ خطب کے معنی حال اور قصہ کے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ اللہ کے فرشتے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ کس مطلب کے لئے زمین پر تمہارا آنا ہوا ہے فرشتوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو قوم لوط پر پتھر برسانے کے عذاب کے لئے بھیجا ہے تفسیر سدی اور تفسیر حسن بصری میں لکھا ہے کہ ان کنکروں پر خدا کی طرف سے ایک مہر کی سی صورت تھی جس سے وہ کنکر دنیا کے کنکروں سے الگ پہچانے جاتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نشان کئے ہوئے تھے یہاں اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر فقط کنکروں کے مینہ کا ذکر فرمایا ہے۔ سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ پہلے ان لوگوں کے رہنے کی بستیاں الٹی گئیں اور پھر یہ پتھروں کا مینہ برسا۔ قوم لوط کے چار لاکھ آدمی تھے جو اس عذاب الٰہی سے ایک دم میں ہلاک ہوگئے۔ جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ قوم لوط کی طرح فعل کرنے والے شخص کو سنگسار کرنا چاہئے ان علماء نے ان پتھروں کے مینہ سے سنگساری کی دلیل پیدا کی ہے۔ ابو داؤود 2 ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے اور بیہقی میں حضرت علی سے جو روایت ہے اس میں بھی اغلامی شخص کے سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ امام شافعی 3 ؎ علیہ الرحمۃ کا مذہب حضرت علی ؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے اس قول کے موافق ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کا قول اس کے برخلاف بھی ہے اس کا ذکر آگے آتا ہے اسی واسطے شریعت کے احکام چھانٹ کر جن لوگوں نے کتابیں لکھیں ہیں جن کو کتاب الاحکام کہتے ہیں ان میں علماء نے یہی لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا کوئی فعل یا قول اس باب میں نہیں پایا جاتا۔ اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کو اس مسئلہ میں ایک طرح کا شک اور اختلاف جو رہا اس سے اس قول کی تصدیق بھی ہوتی ہے صحابہ کا شک تو اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے جو بیہقی میں 4 ؎ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے زمانہ میں ایک ایسی صورت پیش آئی۔ اس جس سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے صحابہ کو جمع کیا۔ آخر حضرت علی ؓ کے مشورہ کے موافق ایک شخص کو آگ میں جلا دینے کی صلاح قرار پائی۔ اس روایت کو علماء مرسل کہا ہے اور صحابہ کرام کا اختلاف یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس مشورہ کے بعد بھی اس فتویٰ پر سب صحابہ کرام قائم نہ رہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اغلامی شخص کو بلند مکان پر سے دھکا دے کر گرا دینے کا فتویٰ دیا کرتے تھے اور بعض صحابہ تلوار سے قتل کرنے کا اور بعض زنا کی سزا کا فتویٰ دیا کرتے تھے مگر اغلام کی صورت میں زنا سے کم سزا دینے کے کسی صحابی کا قول نہیں ہے اسی واسطے فقہ حنفی اور شافعی میں یہ جو لکھا ہے کہ اغلامی شخص کے لئے فقط تھوڑی سی تعزیر کی سزا کافی ہے۔ اس پر تمام علماء نے اعتراض کیا ہے کہ یہ قول سب صحابہ ؓ کے مخالف ہے۔ بعض علماء نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ معافی گناہ میں غلطی کرنا سزا میں غلطی کرنے سے بہتر ہے مگر اور علماء نے اس جواب کو غلط ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ یہ جو اب صحابہ ؓ سے مخالفت کرنے کے لئے کچھ کافی جواب نہیں ہے۔ مسوف کے معنی حد سے بڑھا ہوا مرد اور ورت کی مباشرت کی حد سے بڑھ کر یہ لوگ لڑکوں سے بدفعلی کرتے تھے۔ اس لئے الہ کے فرشتوں نے انہیں حد سے بڑھے ہوئے کہا۔ پھر بچا نکالا ہم نے جو تھا وہاں ایمان والا فرشتوں کے کلام میں یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ یہاں اس قصہ کو مختصر طور پر فرمایا ہے سورة حجر میں گزر چکا ہے کہ حضرت لوط اور ان کے ساتھ کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس بلا سے بچا دیا۔ ہاں حضرت لوط کے رشتہ داروں میں سے ان کی بی بی جو نافرمان لوگوں کی طرف دار تھی وہ عذاب میں پکڑی گئی اور رکھا اس میں نشان ان لوگوں کو جو ڈرتے ہیں۔ دکھ کی مار کا مطلب یہ ہے کہ قوم لوط کی مثلاً چار بستیاں اجڑ کر اب جو وہاں بودار پانی کا چشمہ ہے یا ثمود کی بستی حجر ملک شام کے راستہ میں اہل مکہ کو پڑتی ہے۔ ایسی چیزوں اور بستیوں کو دیکھ کر انہیں ڈرنا چاہئے جن کے دل میں کچھ خدا کا خوف ہے کیونکہ ان لوگوں کے عذاب کی طرح حال کے لوگوں پر خدا کا عذاب آئے ہوئے کچھ دیر نہیں لگتی۔ تبوک جاتے وقت آنحضرت ﷺ کا گزر ثمود کی اجڑی ہوئی بسیی حجر پر سے ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا 1 ؎ جب تک اس بستی سے گزر نہ ہوجائے خدا سے ڈرنا اور رونا چاہئے کس لئے کہ خدا کا عذاب آتے ہوئے کچھ دیر نہیں لگتی ثمود کے اصل قصہ میں جو روایتیں گزر چکی ہیں وہ آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہیں۔ احکام دین کی دلی تصدیق اور زبانی اقرار اور ہاتھ پیروں کا نیک عمل ان تینوں چیزوں کے مجموعہ کا نام فرقہ معتزلہ کے نزدیک ایمان ہے۔ اور سلف اہل سنت کے نزدیک نیک عمل فقط ایمان کے کامل ہونے کی شرط ہے۔ ان آیتوں میں جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مومنین فرمایا ہے ان ہی کو پھر مسلمین فرمایا ہے۔ اس لئے صاحب کشاف اور معتزلی علماء نے ان آیتوں کو اپنے مذہب کی اس طرح دلیل قرار دیا ہے کہ لفظ اسلام کے معنی میں اعتقاد قلبی داخل نہیں ہے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط کے مسلمانوں میں تصدیق قلبی افرار زبانی نیک عمل تینوں باتوں کا مجموعہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں مومنین اور مسلمین دونوں لفظ فرمائے۔ مفسرین اہل سنت نے فرقہ معتزلہ کی اس دلیل کو کئی طرح ضعیف ٹھہرایا ہے جس کی تفصیل بڑی تفسیروں میں 2 ؎ ہے حاصل یہ ہے کہ اصل میں ایمان کا لفظ شریعت میں شرع کی باتوں پر دلی یقین رکھنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اور اسلام کا لفظ ظاہری اطاعت کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اب یہ ظاہری اطاعت کبھی تو دلی یقین کے ساتھ ہوتی ہے جس طرح حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا قول اللہ تعالیٰ نے آیت اسلمت لرب العلمین میں نقل فرمایا ہے۔ اور کبھی یہ ظاہری اطاعت پورے دلی یقین کے ساتھ نہیں ہوتی۔ جس طرح آیت لم تو منوا۔ ولکن قولوا اسلمنا میں ہے۔ آیت فما وجدنا فیھا غیربیت من المسلمین میں اسلام کا لفظ اسلمت لرب العلمین کے محاورہ کے موافق بولا گیا ہے اس لئے صاحب کشاف وغیرہ نے اس آیت میں لفظ اسلام کو ولکن قولوا اسلمتا کے معنی میں جو لیا ہے یہ معنی اہل سنت کے نزدیک سیاق آیت کے مخالف ہیں۔ اور لفظ مومنین کے قرینہ سے لفظ مسلمین میں اسلام کے معنی اسلمت لرب العلمین کے محاورہ کے موافق اہل سنت کے نزدیک صحیح ہے۔ (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 235 ج 4۔ ) (2 ؎ ابو داؤود کتاب الحدود فیمن عمل عمل قوم لوط ج 2۔ ) (3 ؎ الترغیب والترہیب باب اترہیب من اللواط الخ ص 483 ج 3۔ ) (4 ؎ الترغیب والترہیب باب الترہیب من اللواط ص 483 ج 3۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب نزول النبی ﷺ الحجر 637 ج 2۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 236 ج 4۔ )
Top