Ahsan-ut-Tafaseer - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں
56۔ 60۔ صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر بچہ ملت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر ماں باپ اگر برے ہوئے تو ان کی صحبت سے وہ بچہ بگڑ جاتا ہے۔ مسلم 2 ؎ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جب تک بچہ بولنا سیکھتا ہے اس وقت تک اس کی حالت ملت اسلام پر ہونے کی قائم رہتی ہے۔ معنی اس حدیث کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مثلاً انسان کو جس طرح آنکھیں دیکھنے کے لئے اور کان سننے کے لئے دیئے ہیں اسی طرح ہر انسان کے دل میں حق بات کے قبول کرنے کی ایک صلاحیت رکھی ہے۔ اسی صلاحیت پر ہر بچہ ہوتا ہے اب جو لوگ علم ازلی الٰہی میں نیک قرار پا چکے ہیں وہ اس صلاحیت کے سبب سے نیک راستہ سے لگ جاتے ہیں۔ اور جو لوگ علم الٰہی میں بدقرار پا چکے ہیں وہ اس صلاحیت کو کام میں نہیں لاتے اللہ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور طرح طرح کی نافرمانی کرتے ہیں اور اسی حال میں بغیر توبہ کے مرجاتے ہیں وہ علم الٰہی کے موافق اخیر کو دوزخی قرارپائیں گے۔ علم الٰہی کا نتیجہ کسی شخص کو دنیا میں معلوم نہیں اس لئے شریعت میں ہر شخص کو نیک کام کرنے اور برے کام سے بچنے کی تاکید ہے اب جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے گا وہ مواخذہ کے قابل ہے کیونکہ دنیا کے پیدا کئے جانے سے پہلے علم الٰہی میں یہی ٹھہرا تھا کہ دنیا کے پیدا کئے جانے کی صورت میں جب بعض لوگوں کو نیک و بد کا اختیار دے کر دنیا میں پیدا کیا جائے گا تو یہ لوگ باوجود اللہ کے رسولوں کی فہمایش کے بدی سے باز نہ آئیں گے اور آخر کو جہنم میں جائیں گے۔ اب جبکہ دنیا میں آنے کے بعد بعض لوگوں نے علم الٰہی کے نتیجہ کے موافق اعمال کئے تو اس نتیجہ کے موافق سزا بھی ان کو بھگتنی چاہئے۔ حاصل یہ کہ علم الٰہی اور تقدیر الٰہی میں بغیر برائی کرنے کے کسی کے ذمہ کوئی برائی نہیں لگائی گئی ہے بلکہ برائی کے ظہور میں آنے سے پہلے مثلاً یہ بات علم الٰہی میں تھی کہ فرعون اور ابوجہل کو آزادی دے کر دنیا میں پیدا کیا جائے گا تو یہ شریر النفس ایسی ایسی برائیاں کریں گے اور ان برائیوں کی سزا میں ان کا ٹھکانا اخیر کو دوزخ ہوگا۔ علم الٰہی کا یہی نتیجہ لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے اسی کا نام تقدیر الٰہی ہے دنیا میں نیک و بد عمل کی آزادی ہر ایک کو اس لئے دی گئی ہے کہ دنیا نیک و بد کے امتحان کی جگہ ہے۔ اگر اسی آزادی میں کچھ مجبور کا دخل ہوتا تو پھر امتحان باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ اسی واسطے قیامت کی علامت کے ظاہر ہوجانے کے بعد ایک مجبوری کا وقت جب آجائے گا تو اس وقت کا ایمان اس وقت کی توبہ کچھ قبول نہیں ہے۔ 1 ؎ اس حدیث اور آیت وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون کا مطلب ایک ہے اس لئے یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اپنی عبادت کے ساتھ اپنی رزاقی کا ذکر جو فرمایا اس کی تفسیر ترمذی 2 ؎ ابن ماجہ صحیح ابن جان مستدرک حاکم میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص خالص دل سے میری عبادت میں لگا رہے گا میں اس کو روزی رزق سے تنگ حال نہ رکھوں گا۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ 3 ؎ اس مضمون کی ایک حدیث قدسی ابی امامہ کی روایت سے مستدرک 4 ؎ حاکم میں ہے اس کو بھی حاکم نے صحیح کہا ہے۔ عرب میں لوگوں کے پاس غلام بہت تھے وہ لوگ اپنے غلاموں کو یا تو کسی کمائی کے کام میں لگا کر اس آمدنی کو اپنے خرچ میں لاتے تھے یا ان غلاموں سے اپنے گھر کے کام کاج میں مدد لیتے تھے اسی واسطے فرمایا کہ ان دونوں باتوں میں سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کوئی بات نہیں چاہتا۔ وہ خود تمام عالم کا رازق ہے کسی کی کمائی کی اسے کیا پروا ہے۔ اسی طرح وہ ایسا صاحب قوت ہے کہ کسی کی مدد کا وہ اپنے کام میں محتاج نہیں۔ صحیح مسلم 5 ؎ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے فرمائے گا اے شخص میں نے تجھ سے دنیا میں کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھ کو پانی نہیں دیا۔ میں بیمار پڑا تو میری خیریت پوچھنے کو نہیں آیا۔ وہ شخص کہے گا یا اللہ تو بھوک پیاس بیماری ‘ ان سب باتوں سے پاک ہے میں کس طرح تجھ کو کھانا پانی دیتا اور کیونکر تیری خیریت پوچھنے آتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ اس اپنے بندے کو سمجھائے گا کہ دنیا میں میرا فلانا بندہ بھوکا تھا تو نے اس کو کھانا نہیں دیا۔ اگر تو اس کو کھانا دیتا تو وہ کھانا گویا مجھ کو پہنچتا اور آج اس کا اجر تجھ کو پہنچ جاتا۔ پھر اسی طرح پیاسے اور بیمار کر ذکر فرمائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی ذات تو سب ضرورتوں سے بےپرواہ ہے لیکن اس نے اپنی مخلوق ضرورتوں کے رفع کرنے کو وہ مرتبہ دیا ہے جس کا ذکر اس صحیح حدیث میں ہے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس مرتبے کے حاصل کرنے کی جہاں تک ہو سکے کوشش کرے آخر سورة میں اہل مکہ کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ لوگ عذاب کی جلدی گھڑی گھڑی کیا کرتے ہیں۔ پچھلی امتوں کے عذاب کا حال ان کو سنا دیا گیا اگر ان امتوں کی طرح یہ لوگ بھی نافرمانی سے باز نہ آئے تو ایک دن وہی خرابی ان کے نصیب میں ہے فقط وقت مقررہ آنے کی دیر ہے۔ ذنوب بڑے ڈول کو کہتے ہیں عرب کے ملک میں پانی کی قلت ہے اس واسطے قبیلہ کے کنویں میں سے ایک بڑا ڈول بھرا جاتا تھا اور وہ پانی آپس میں حسب حصہ رسد بانٹ لیتے تھے اسی سبب سے پھر رفتہ رفتہ ذنوب حصہ کے معنی میں بولا جانے لگا۔ (1 ؎ صحیح بخاری باب اللہ اعلم بما کانوا عاملین ص 976 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح مسلم باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ الخ ص 336 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم باب بیان الزمن الذی لایقبل فیہ الایمان ص 88 ج 1۔ ) (2 ؎ مشکوٰۃ شریف۔ باب فی النصائح ص 440 فصل ثانی و ترغیب ترہیب ‘ باب الترغیب فی العبادۃ ص 202 ج 4۔ ) (3 ؎ مشکوٰۃ شریف۔ باب فی النصائح ص 440 فصل ثانی و ترغیب ترہیب ‘ باب الترغیب فی العبادۃ ص 202 ج 4۔ ص 203) (4 ؎ مشکوٰۃ شریف۔ باب فی النصائح ص 440 فصل ثانی و ترغیب ترہیب ‘ باب الترغیب فی العبادۃ ص 202 ج 4۔ ص 201۔ ) (5 ؎ صحیح مسلم باب فضل عیادۃ المریض ص 318 ج 2۔ )
Top