Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tur : 44
وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا كِسْفًا : وہ دیکھیں ایک ٹکڑا مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے سَاقِطًا : گرنے والا يَّقُوْلُوْا : وہ کہیں گے سَحَابٌ : بادل ہیں مَّرْكُوْمٌ : تہ بہ تہ
اور اگر یہ آسمان سے (عذاب) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں تو کہیں کہ یہ گاڑھا بادل ہے
44۔ 47۔ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اگر قرآن اور یہ دین سچا ہے تو اللہ ہم پر آسمان سے پتھروں کا مینہ برسائے یا کوئی اور عذاب بھیج دے تاکہ اس دین کا سچا پن ہم کو معلوم ہوجائے اور سورة بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ قریش میں کے چند آدمیوں نے کہا تھا کہ عذاب کے طور پر آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی ہم پر گر پڑے تو بھی اس قرآن پر ایمان نہ لائیں گے غرض قریش کی ایسی ایسی باتوں کا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا ہے کہ ان لوگوں کی ڈھٹائی اب یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ قوم عاد یا قوم شعیب کی طرح آسمان پر کوئی عذاب کا بادل کا ٹکڑا بھی ان کو نظر آئے گا تو جب بھی انہیں عذاب کا یقین نہ آئے گا اور اس عذاب کے بادل کو جس طرح قوم عاد نے معمولی بادل بتایا تھا ویسا ہی یہ کہیں گے پھر فرمایا کہ جب ان لوگوں کی سرکشی اس درجے کو پہنچ گئی ہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ سمجھانے اور نصیحت کرنے کا موقع اب باقی نہیں رہا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے پھر ان کو ان کی سرکشی کی سزا مل جائے گی دنیا میں کچھ عذاب ان پر آئے گا اور پھر ہمیشہ ہمیشہ عذاب آخرت میں گرفتار رہیں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے دنیا کا عذاب بدر کی لڑائی میں آیا کہ ستر آدمی بڑے بڑے سرکش قریش کی بڑی ذلت اور خواری سے اس لڑائی میں مارے گئے اور ستر قید ہوئے اور ہر ایک شخص کی آنکھیں تو اس قابل نہیں ہیں کہ وہ دنیا کی آنکھوں سے عذاب آخرت کو دنیا میں دیکھ سکے مگر اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ان سرکشوں کے عذاب آخرت کا حال بھی دنیا میں دکھلا دیا۔ اسی واسطے آپ نے ان سرکشوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کا وعدہ سچا پا لیا۔ چناچہ مسند امام احمد صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم میں انس بن مالک کی روایت میں اس قصہ کا ذکر ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تسلی فرمائی کہ اگر ان لوگوں کی یہی سرکشی باقی رہی تو عذاب آخرت سے پہلے ان پر کوئی دنیا کا عذاب آجائے گا وقت مقررہ تک حکم الٰہی کا انتظار اور اس وقت تک صبر کرنا چاہئے بدر کی لڑائی کے وقت اس وعدہ کا ظہورہوا۔ آنحضرت ﷺ کو پہلے سے اللہ تعالیٰ نے جتلا دیا تھا کہ اس بدر کی لڑائی میں قریش پر آفت آئی گی۔ چناچہ صحیح 2 ؎ مسلم میں انس بن مالک حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے جگہ بتا دی تھی کہ یہاں ابوجہل کی لاش پڑی ہوگی اور یہاں فلاں شخص کی۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے ان مخالفوں سے تمہاری جان کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے۔ یہاں مکی سورة میں تو مختصر طور پر فرمایا پھر مدنی سورة سورة مائدہ میں صراحت سے فرمایا : واللہ یعصمک من الناس۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے فرما دیا تھا کہ میری جان کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی ترمذی 3 ؎ اور مستدرک حاکم کی روایت میں اس کا ذکر ہے اگرچہ ترمذی نے اس کو غریب کہا ہے مگر حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ ( (2 ؎ صحیح مسلم۔ باب غزوہ بدر ص 102 ج 2۔ ) 3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 245 ج 4۔ )
Top