Ahsan-ut-Tafaseer - An-Najm : 56
هٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى
ھٰذَا نَذِيْرٌ : یہ ایک ڈراوا ہے مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى : پہلے ڈراووں میں سے
یہ (محمد ﷺ بھی اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں
56۔ 62۔ مشرکین مکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول اور صحف ابراہیمی کو وحی آسمانی اور اپنے آپ کو ملت ابراہیم کا پابند جانتے تھے اس لئے فرمایا کہ جب تم لوگ انسان کا اللہ کا رسول ہونا اور اس پر اللہ کے کلام کا نازل ہونا مانتے ہو تو پھر نبی آخر الزمان کے رسول اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں تم لوگوں کو تعجب کس بات کا ہے۔ اللہ کے انتظام میں ہر چیز کی دنیا میں عمر مقرر ہے اس لئے دنیا کی جو عمر مقرر کی گئی ہے وہ اب ختم ہونے کو ہے اور اس کے ختم پر قیامت آنے والی ہے جس طرح اس وقت دنیا کے کاروبار میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں اس طرح لگے رہیں گے کہ ایک دفعہ ہی دنیا کے اجڑنے کا صور پھونک دیا جائے گا۔ عقبہ بن عامر کی حدیث معتبرسند سے طبرانی 2 ؎ میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خریدو فروخت کے لئے کپڑے کے جو تھان بازار میں دکان دار کھول کر پھیلائے گا اس کو لپیٹنا اور دودھ والے جانوروں کا دودھ دوھ کر اس کا پینا اور آب نوشی اور آپ پاشی کے ذریعوں کی مرمت کرکے ان کے پانی کا برتنا نصیب نہ ہوگا کہ آن واحد میں قیامت قائم ہوجائے گی۔ قیمت کی سختیاں جب سر پر آجائیں گی تو سوا اللہ تعالیٰ کے ان کو کوئی ٹال نہ سکے گا مشرک کے لئے خدا کا وعدہ ہے کہ اس دن اس کی کوئی سختی نہ ٹالی جائے گی۔ ملت ابراہیمی کو بگاڑ کر اہل مکہ نے گھر گھر جو بٹ پرستی کا شرک پھیلا رکھا ہے اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نبی آخر الزمان کو آخری شریعت دے کر بھیجا ہے مگر ازلی کم بختوں کی کم بختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کو جھٹلاتے ہیں۔ اللہ کی شریعت کو ہنسی کھیل میں اڑاتے ہیں پھر جو لوگ راہ راست پر آگئے تھے ان کو فرمایا کہ ان ازلی کم بختوں کو بتوں کے آگے سر جھکانے دو تم خالص دل سے اللہ کے آگے سر جھکاؤ بدنی مالی ہر طرح کی عبادت میں نیت کا خالص رکھنا نہ چھوڑو صحیح 1 ؎ بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود ؓ اور عبد اللہ بن عباس کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سورة النجم پڑھی اور اس کے آخر پر سجدہ کیا۔ اور اس وقت جو مسلمان آپ ﷺ کے پاس موجود تھے سب نے سجدہ کیا فقط قریش میں کے ایک عمر رسیدہ شخص نے بجائے سجدہ کے اپنی ہتھیلی پر ذرا سی مٹی لے کر اس مٹی پر اپنی پیشانی ٹکص لی۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ یہ شخص حالت کفر میں مارا گیا۔ بخاری 2 ؎ کی عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ سجدہ کی سورتوں میں و النجم پہلی سورت ہے اور جس شخص نے سجدہ نہیں کیا وہ امیہ بن خلف تھا۔ صحیحین 3 ؎ میں زبد بن ثابت سے روایت ہے کہ میں نے سورة النجم آنحضرت ﷺ کو پڑھ کر سنائی اور آپ نے سورة کے آخر پر سجدہ نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سورة میں سجدہ کا جو حکم ہے وہ سجدہ تلاوت کا حکم ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔ بخاری کی 4 ؎ عبد اللہ بن عباس کی روایت میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ مشرکین مکہ کے سجدہ کرنے کا جو ذکر ہے اس کا تفصیلی قصہ سورة حج میں گزر چکا ہے۔ 5 ؎ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت سورة النجم مکہ میں نازل ہوئی اور آنحضرت ﷺ نے سورة کو مشرکین کے رو برو پڑھا اور اس آیت تک پہنچنے جس میں لاۃ غزی اور مناۃ بتوں کا نام ہے تو شیطان نے آنحضرت ﷺ کی قرأت کے سکتہ کے وقت کچھ کلمے ایسے پڑھ دیئے جن سے ان بتوں کی تعریف اور ان کی شفاعت کا ذکر نکلتا تھا مشرکین مکہ نے جب اپنے بتوں کی تعریف سنی تو اس سے خوش ہو کر آخر سورة پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ سجدہ کیا۔ اس کے بعد فوراً حضرت جبرئیل اللہ تعالیٰ کے حکم سے آئے اور انہوں نے شیطان کی اس شرارت کا حال کھول دیا۔ شیطان کی یہ شرارت ایسی تھی جیسے اس نے جنگ احد میں آنحضرت ﷺ کے شہید ہوجانے کی خبر لوگوں کے کان میں پھونک دی تھی۔ محی الدین ابن عربی ‘ قاضی عیاض اور بعض علماء نے اگرچہ اس قصہ کے صحیح ہونے میں کلام کیا ہے مگر اس قصے کو کئی سندوں سے معتبر راویوں نے مرسل طور پر روایت کیا ہے بغیر صحابی کے ذکر کے تابعی شخص آنحضرت ﷺ سے کوئی روایت کرے تو اس کو مرسل کہتے ہیں اس مرسل روایت کے تین طریقہ صحیح کی شرط پر ہیں جس سبب سے ایک روایت کو دوسری روایت سے تقویت ہو کر اس قصہ کو بےاصل نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ (2 ؎ الترغیب والترہیب فصل فی النفح فی الصور الخ ص 727 ج 4۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة النجم ص 721 ج 2 و صحیح مسلم باب سجود التلاوۃ ص 215 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة النجم ص 721 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم۔ باب سجود التلاوۃ ص 215 ج 1‘ و صحیح بخاری باب من قرأ السجدۃ ولم یسجد ص 146 ج 1۔ ) (4 ؎ دیکھئے صفحہ گزشتہ ) (5 ؎ تفسیر ہذا جلد 4 ص 84)
Top