Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
جو مخلوق زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے
26۔ 30۔ یہ تو سورة دخان میں گزر چکا ہے کہ ہر شب قدر کو سال بھر کے انتظام کی لوح محفوظ سے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو نقل اتروا دیتا ہے اس کے موافق سال بھر کا انتظام دنیا کا چلتا رہتا ہے۔ اس انتظام الٰہی کے سبب سے ہر روز دنیا میں ہزاروں باتیں ایسی پیش آتی رہتی ہیں جن سے روز اللہ تعالیٰ کی ایک نئی شان اور نئی قدرت معلوم ہوتی رہتی ہے کوئی چلتا پھرتا بھلا چنگا دم بھر میں مرجاتا ہے کوئی اس طرح کی بیماری سے کہ جس سے کسی طرح بچنے کی امید نہ تھی تندرست ہوجاتا ہے کوئی امیری سے غریبی کے حال کو پہنچ اتا ہے کوئی غریب سے امیر ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری 2 ؎‘ ابن ماجہ ‘ طبرانی وغیرہ میں مرفوع اور موقوف روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی۔ آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کسی کا گناہ بخشتا ہے کسی کی تکلیف دور کرتا ہے کسی کو امیر کرتا ہے کسی کو غریب کرتا ہے اسی طرح سب باتیں اللہ کی شان اور قدرت کی نشانیاں ہیں۔ زمین پر اللہ تعالیٰ کے روز مرہ طرح طرح کے انتظامات جو جاری ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی شان معلوم ہوتی ہے یہاں تک زمین پر کے ان زمین کے انتظامات کی تفسیر ہوئی۔ اب اسی طرح آسمان پر ہر گھڑی فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے طرح طرح کے احکامات سے اللہ تعالیٰ کی شان معلوم ہوتی رہتی ہے چناچہ طبرانی تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ہمیشہ پچھلی رات کو اللہ تعالیٰ لوح محفوظ پر نظر ڈالتا ہے اور بہت سے حکموں کو جو لوح محفوظ میں لکھے ہیں بحال رکھتا ہے اور بہت موقوف اور منسوخ فرما دیتا ہے اور اسی کے موافق ملائکہ کو طرح طرح کے حکم اللہ تعالیٰ ہر وقت دیتا ہے جس سے ملائکہ کو طرح طرح کی اللہ کی شان اور قدرت معلوم ہوتی رہتی ہے۔ صحابہ ؓ کے اس اختلاف کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ بعض صحابہ کے نزدیک نیک بختی اور بدبختی اور موت اور حیات کے احکام میں کچھ رد و بدل نہیں ہوتا۔ لیکن حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن مسعود وغیرہ اس کے مخالف ہیں۔ اور مسند 2 ؎ امام احمد نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں کہ صلہ رحم سے عمر بڑھ جاتی ہے دعادعا کی اور قضا وقدر کے حکم کی لڑائی ہوتی ہے اور سواء دعا کے اور کوئی چیزایسی نہیں ہے جو قضا و قدر کے حکم کو پھیر دے۔ اور ترمذی 3 ؎ ابو داؤود نسائی ابن ماجہ دارمی کی دعا قنوت کی روایت میں یہ ہے کہ قضاء و قدر کے مضر حکم سے یا اللہ مجھ کو بچا ان سب روایتوں سے ان صابہ کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جن کا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوح محفوظ کے تمام حکموں میں رد بدل فرماتا ہے کسی حکم کی کچھ خصوصیت نہیں ہے لیکن علم الٰہی میں کچھ رد و بدل نہیں ہوتا بلکہ سال بھر کے انتظام کا نوشتہ جو فرشتوں کو دیا جاتا ہے علم الٰہی کے موافق صلہ رحمی یا دعا کے سبب سے اس میں رد و بدل ہوجاتا ہے جو رد و بدل علم الٰہی کا پورا نتیجہ ہے مثلاً ایک شخص کے لوح محفوظ کے چند سال کے حسابی اتارے میں بد عمل لکھے ہیں جس سے وہ شخص بدبخت معلوم ہوتا ہے لیکن چند سال کے بعد علم الٰہی کا یہ نتیجہ لکھا ہوا ہے کہ اس شخص کا خاتمہ بخیر ہوگا اس نتیجہ کے وقت سے پہلے فرشتوں کا علم اس رد و بدل سے قاصر ہے سورة رعد میں اس کی تفصیل زیادہ گزر چکی ہے۔ (2 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الرحمن ص 723 ج 2 و تفسیر الدر المنثور ص 143 ج 6۔ ) (2 ؎ مشکوٰۃ شریف باب البرو الصلۃ فصل ثانی ص 419۔ ) (3 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی القنوت فی الوتر ص 86 و 87 ج 1۔ )
Top