Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Rahmaan : 54
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى فُرُشٍۭ بَطَآئِنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ١ؕ وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍۚ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي فُرُشٍۢ : ایسے فرشوں پر بَطَآئِنُهَا : ان کے استر مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ۭ : موٹے تافتے کے ہوں گے وَجَنَا الْجَنَّتَيْنِ : اور پھل دونوں باغوں کے۔ پھل توڑیں گے دونوں باغوں کے دَانٍ : قریب قریب ہوں گے۔ جھکے ہوئے ہوں گے
(اہل جنت) ایسے بچھونوں پر جن کے استر اطلس کے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اور دونوں باغوں کے میوے قریب (جھک رہے) ہیں
54۔ 61۔ معتبر سند سے بیہقی 3 ؎ میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ جس بچھو نے کا استر ریشمی کپڑے بیش قیمت کا ہوگا اس بچھونے کے بارے کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کیسا ہوگا استبرق دلدار ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں 4 ؎۔ مجاہد کے قول کے موافق جنت کی میوہ دار شاخیں ایسی حالت پر ہوں گی کہ کھڑے بیٹھے لیٹے سب طرح ان شاخوں میں کا میوہ جنتی لوگ کھا سکیں گے۔ صحیح بخاری 5 ؎ و مسلم میں عبد اللہ بن اوفی سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے لو مشرق سے مغرب تک ساری زمین پر اس کی خوبصورتی کی چمک پھیل جائے۔ بعض 1 ؎ روایتوں میں یوں بھی ہے کہ اس کے حسن کی چمک سے سورج اور چاند کی روشنی ماند ہوجائے۔ آیت کا نھن الیاقوت والمرجان کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ طبرانی 2 ؎ میں حضرت ام سلمہ کی بہت بڑی حدیث ہے اس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ دنیا کی ایماندار عورتوں کا درجہ جنت میں بڑھ کر ہوگا یا جنت کی عورتوں کا آپ نے فرمایا نیک عملوں کے اجر کے سبب سے دنیا کی عورتوں کا درجہ جنت میں بڑھ کر ہوگا۔ ان کے چہروں پر اللہ کے حکم سے عجب طرح کا نور آجائے گا۔ طبرانی کی اس حدیث کی سند میں ایک راوی سلیمان بن ابی کریمہ ہے جس کے ثقہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے۔ مسند 3 ؎ ابی یعلی اور بیہقی میں بھی اس مضمون کی روایتیں ہیں جن سے ام سلمہ ؓ کی حدیث کی تقویت ہوجاتی ہے۔ بیہقی کی سند میں ایک راوی اسماعیل بن رافع کو اگرچہ بعض علماء نے ضعیف بتایا ہے لیکن امام بخاری نے اس کو ثقہ کہا ہے جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا کی عورتیں حسن اور درجہ میں حوروں سے جنت میں بڑھ کر ہوں گی ان کے قول کی بنیاد اس حدیث پر ہے اور جو علماء حوروں کے بڑھ کر ہونے کے قائل ہیں ان کے قول کی بنیاد عوف بن مالک کی صحیح 4 ؎ مسلم کی اس حدیث پر ہے جس میں آپ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی اور یہ دعا کی کہ یا اللہ تو اس میت کو بہ نسبت دنیا کے گھر کے اور دنیا کی بی بی کے عقبیٰ میں اچھا گھر اور اچھی بی بی دے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقبیٰ کی بیبیاں دنیا کی بیبیوں سے اس طرح اچھی اور بہتر ہوں گی جس طرح وہاں کا گھر دنیا کے گھر سے اچھا اور بہتر ہوگا۔ ظاہرا یہی آخری قول قوی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایک قوی حدیث پر ہے لیکن یہ حدیث عام ہے اس میں سے زیادہ نیک عمل والی دنیا کی عورتوں کو خاص ٹھہرانا چاہئے کیونکہ دوسرے قول کی بنیاد جن حدیثوں پر ہے ان کے باہمی تقویت کا حال بھی بیان کیا جا چکا ہے۔ نیچی نگاہ والیوں کا مطلب حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ 5 ؎ کے قول کے موافق یہ ہے کہ سوائے اپنے شوہر کے دوسرے غیر مرد کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھیں گی۔ نہیں ساتھ سلایا ان کو کسی آدمی نے ان سے پہلے نہ کسی جن نے ‘ اس کا مطلب حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی تفسیر کے موافق یہ ہے کہ وہ کو اری ہوں گی۔ آیت کے اس ٹکڑے کو علماء نے اس بات کی دلیل ٹھہرایا ہے کہ جنات بھی جنت میں جائیں گے۔ صحیح و مسلم 6 ؎ کی معاذ بن جبل کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ خالص دل سے اللہ کی عبادت کریں اور اس حق کے ادا ہونے کے بعد بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو دوزخ کے عذاب سے بچا کر جنت میں داخل کرے آیت ھل جزاء الاحسان الاحسان کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 147 ج 6 و تفسیر ابن کثیر ص 277 ج 4۔ ) (4 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 147 ج 6۔ ) (5 ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ص 972 ج 2۔ ) (1 ؎ الترغیب والترہیب فصل فی وصف نساء اھل الجنۃ ص 988 ج 4۔ ) (2 ؎ الترغبب والترہیب فصل فی وصف نساء اھل الجنۃ ص 993 ج 4۔ ) (3 ؎ الترغیب والترہیب۔ فصل فی وصف نساء اھل الجنۃ ص 991 ج 4۔ ) (4 ؎ صحیح مسلم۔ فضل الدعاء للمیت ص 311 ج 1۔ ) (5 ؎ تفسیر ابن کثرو ص 278 ج 4۔ ) (6 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 278 ج 4۔ )
Top